پانچ سالہ ڈائپر
گیارہ مئی کو ہماری موجودہ جمہوریت ایک سال کی ہوجائے گی ۔ ایک سال کا ہوجانا کیا معنی رکھتا ہے ؟ جب بچہ ایک سال کا ہوتا ہے تو عام طور پر چلنا شروع کردیتا ہے ۔ گرنا کم کردیتا ہے ۔ اپنا نام بتانے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ اپنے اماں ابا کو پکارتا ہے ۔ اپنی بعض ضرورتیں بتا پاتا ہے ۔ ٹھوس غذا کا سلسلہ جو چار سے چھ ماہ کی عمر کے درمیان شروع ہوا تھا اس میں ترقی پاتا ہے ۔اب اس کے ہاتھ سے چیزیں محفوظ نہیں رہتیں ۔ اٹھا پٹخ کرتا ہے سب سے اہم بات یہ کہ اب والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کا ڈائپر پر انحصار ختم کروانا شروع کیا جائے ۔ اسے سکھایا جائے کہ ہر بشری تقاضے کی تکمیل کی طلب پر اعلان کرنا ہے ۔ سال گرہ پر اسے ڈھیروں تحائف ملتے ہیں اور وہ نت نئے کھلونوں سے کھیلنا شروع کرتا ہے ۔ یہیں سے وہ ضد کرنا اور مزید کھلونوں کی فرمائش کرنا سیکھتا ہے ۔
ہماری جمہوریت کا حال کہیں کہیں ایک بچے جیسا ہے اور کہیں یکسر مختلف ۔ ہماری جمہوریت پاو¿ں پاو¿ں بھی چل رہی ہے اور گھٹنوں کے بل بھی ۔ہماری جمہوریت نے اپنے پیروں پہ چل کر اس ایک سال میں ملکوں ملکوں گھوم بھی دیکھا ہے ۔ امریکا سے چین تک ہماری جمہوریت ہو آئی ہے ۔ ابھی بھی لندن میں ہے یہ کبھی کبھی پاکستان کا دورہ بھی کرتی ہے ۔مگر امریکا میں یہ گھٹنوں گھٹنوں چلی تھی ۔ اس کا دال قیمہ ہوگیا تھا ۔اس کی تتلاہٹ پرچے پر لکھے پیغام سے واضح تھی اور پھر جس طرح سے پرچہ ہپ پاکٹ میں رکھا گیا تھا اس سے بھی پتہ چل گیا تھا کہ” بچہ ابھی کچا “ ہے ۔ ہماری جمہوریت نے کروٹ لینا ہی سیکھا تھا کہ کیانی صاحب کے جانے کے دن آگئے ۔ ”ٹیدر“ لے لیا کیونکہ دانت نکلنے کی تکلیف جیسا معاملہ تھا اور تکلیف تھی بھی شدید ۔ نئے آرمی چیف کا نام لینا چند ماہ کی جمہوریت کے لیے دشوار ہورہا تھا کہ کیانی صاحب نے اپنی ”طے شدہ ریٹائرمنٹ کا بھی اعلان “کردیا اور پرویز رشید صاحب نے کہا کہ” جنرل کیانی کا اعلان مستحسن اقدام ہے “ یہ ایسا ہی ہے کوئی شخص کسی پٹرول پمپ پر گاڑی روکے بیس لٹر فیول ڈلوائے اور پمپ اٹینڈنٹ کو بتائے کہ اب جبکہ میں بیس لٹر فیول ڈلوا چکا تو میں تم کو بیس لٹر کے پیسے دوں گا اور پمپ اٹینڈنٹ کہے ” جناب کیا ہی اچھا فیصلہ ہے آپ کا ©© “
پھر ہماری جمہوریت کے ٹھوس غذاو¿ں پر آنے کا وقت آیا لیکن بجائے اس کے کہ چند ماہ کی جمہوریت کم از کم کوئی نیم ٹھوس چیز منہ میں ڈالتی اس نے پتلی کھچڑی کا انتخاب کیا اور صدر ”ممنون “ ہوگئے ۔ یہاں ہم نے جمہوریت کی نشو ونما کمزور پائی ہمیں لگا کہ پوت کے پاو¿ں پالنے میں نظر آنے میں سال سے اوپر کا عرصہ لگے گا لیکن یہ پاو¿ں لات بن کر برسنے لگے اس ننھی سی لات نے کبھی پٹرول کے نرخ بن کر کمر توڑی تو کبھی یہ لات بجلی بن کر گری ۔اس بچے نے بتادیا کہ بالکل کسی نومولود کی طرح میں تمہاری راتوں کی نیندیں حرام کردوں گا دن کا چین چھین لوں گا ۔ قربانی تو تمہیں دینی پڑے گی کیونکہ مجھے پالنا جو ہوا۔
پھر اس بچے کو شدید انفیکشن ہوگیا حالانکہ قبل از پیدائش الیکشن کے ہر جلسہ نما الٹراساو¿نڈ میں نظرآرہا تھا کہ اس بچے کو کوئی انفیکشن نہیں ہوگا بلکہ انفیکشن تو خود اس بچے کی گارنٹی مانگ رہے تھے ۔ انفیکشنز نے بتادیا تھا کہ ہمیں گیارہ مئی کو جمہور کی کمزور زچہ سے ایک نیک اور صالح بچہ چاہیے ۔ لیکن اس بچے کو انفیکشن نے ایسا گھیرا کہ بدن پر جا بجا پھوڑے نکل آئے ۔ جن سے خون رسنے لگا ۔ خود کش حملوں کے پھوڑے ، بم دھماکوں کے پھوڑے ، ریلوے ٹریکس پر دھماکوں کے پھوڑے اور اغوا کے پھوڑے ۔ ان پھوڑوں سے پیپ رسنے لگی ۔خون بہتا رہا لیکن بچہ آخر بچہ ہے ۔ بازیچے میں مگن رہا اور مگن بھی ایسا مگن کہ پانچ فروری کو بدن پر دھماکے کا شدید پھوڑا نکلا ۔ ہلاکتیں ہوگئیں ۔ لیکن جمہوریت نے چولستان میں رات قیام کیا ۔ لاہور سے باورچی گئے ۔ گویے گئے اور لوریاں سنائی گئیں۔ یہ مقام چند ماہ کی جمہوریت کو انیس سو اسی سے پسند ہے ۔ انیس سو اسی میں جمہوریت کی پیدائش سے بہت پہلے کسی برزخ جیسے ماحول میں ،وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھتے ہوئے گورنر جیلانی کی کھیلوں کے امور پر مشاورت کے دنوں میں یہاں کی سیر کیا کرتی تھی۔ بہرحال جمہوریت نے انفیکشن سے بچاو¿ کے لیے کسی انٹی بائیوٹک کا سہارا لینے کی بجائے انتیس جنوری کو اعلان کردیا کہ طریقہ علاج ہومیو پیتھک ہوگا ۔ اور اس کے بعد ڈاکٹر بدلے جاتے رہے ۔ پہلے چار ڈاکٹرز کا ایک پینل تشکیل دیا گیا ۔ پھر نیا پینل ۔ نیا پینل بھی ٹوٹ گیا ۔ اس طریقہ علاج سے افاقہ تو ہوا لیکن بدن کو نہیں انفیکشن کو ۔ انفیکشن مزید پھیلانے کو چند ماہ کی ناسمجھی نے وہ تمام جرثومے بھی کھلے چھوڑ دیے جو کبھی کسی دوا کے زیر اثر کہیں پڑے تھے ۔
اس بچے نے کمزور زچہ جمہور کو قبل از پیدائش ایک خواب دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔۔۔۔۔۔ اور یہ بتادیا تھا کہ ”قرض ایک لعنت ہے “ مگر پیدائش کے بعد خواب کی بھیانک تعبیر دکھاتے ہوئے کہا کہ ” قرض ایک لعنت ہے اگر کم ہو “.... بچہ ایک سال کے قریب پہنچ رہا تھا اور اٹھا پٹخ کے دن آگئے تھے ۔ بچے نے ایک قیمتی گلدان جو پھوہڑ پن کے ساتھ استعمال ہورہا تھا اٹھاکر پھینک دینے کا فیصلہ کرلیا اور اشاروں میں بتایا کہ ٹوٹ کر کچرا ہوگا چھبیس فی صد پر کسی مسکین کو دے ہی دیا جائے ۔ اٹھا پٹخ اور بڑھی اور بچے نے گھر میں عرصے سے سنبھال کر رکھے گئے قیمتی کاغذات سستے داموں بیچ دیے ایسے جیسے یہ تھری جی اور فور جی کی کاغذات نہیں اس کے باوا جی کے کاغذات ہوں۔
بچے کے چلنے کے دن ہیں اب یہ پتہ چلنا ہے کہ بچے کا وزن کتنا ہے اور اس کے قدموں میں لغزش کتنی ہے ۔فی الحال بچہ معیاری وزن سے بہت ہی ” ہلکا “ہے جبھی تو بتارہا ہے کہ مشرف سمندر کنارے آکر بس گئے ہیں ان کا فیصلہ ساحلی شہر کے باسی کریں گے ۔ ساتھ ہی بچے نے یہ بھی بتادیا ہے کہ اسے وہ انگلی مروڑنے کا شوق ہورہا ہے جسے سب پکڑکر چلتے رہے ہیں بلکہ اشاروں پر چلے ہیں ۔ اور اسی انگلی کے اشارے کمزور زچہ جمہور کو اپنی تمام عمر میں جمہوریت سے زیادہ ملے ہیں ۔یہ انگلی کئی بار جمہوریت کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر ۔۔۔۔۔ دودھ سے اسی رغبت کی بنا پر اس انگلی کو بلا بھی کہا گیا ہے ۔لیکن ایک عجیب سے ڈر کی فضا ہے ۔ بچہ کبھی انگلی مکمل چھوڑ کر قدم اٹھا تا ہے اور کبھی لڑکھڑا کر پھر پکڑ لیتا ہے ۔ بچہ بڑا ہو کر کیا گل کھلائے گا یہ سوچتے ہوئے صرف بے یقینی گھیر لیتی ہے کیونکہ اس کی اب تک حرکتیں بدگمانیاں پیدا کررہی ہیں ۔ مگر ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان تمام مسائل کے ہوتے ڈائپر نہیں اتر سکتا ۔ ٭