مَیں نے دیکھے ہیں ہر سمت خزاں کے سائے
ہر جواب اب خود ایک سوال تخلیق کر رہا ہے اور اب کب تک سوال ہوتے رہیں گے کہ ہر جواب سے پھر ایک سوال ابھرتا ہے، کیا ہم مرغی اور انڈے کی اس بحث کو ختم کرنے پر تیار ہیں۔اگر تیار ہیں تو آپ اپنے عوام کی طرف رجوع کریں۔ شہروں کی خبریں تو ہمیں مل جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر جھوٹ سچ کی فراوانی ہے، اسے بھی مقید کرنے کی کوشش جاری ہے،لیکن اڑان بھرنے سے کب تک پرندوں کو روکا جا سکتا ہے۔ بہت نہ ہی مسلسل نہ سہی کم از کم بادو باراں تو ہوتی رہے گی، اس لئے بہتر ہے کہ ان مسائل سے ہٹ کر نہیں تو کم از کم قدرے توقف اختیار کر کے عوام کی زندگی کی طرف رجوع کر لیا جائے کہ گزشتہ بہتر برس سے اہل ِ قوت و اقتدار نے انہیں اپنی فکر سے ہی باہر دھکیل رکھا ہے اور گزشتہ تین برس تو اُن پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے ہیں۔حکومت تو اپنے کام میں مصروف تھی ہی، مگر قدرت نے کورونا کو بھی عوام کے امتحان کے لئے ان پر نازل کر دیا۔ایک عالمی اقتصادی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نچلا درمیانہ طبقہ خط ِ غربت تک آن پہنچا ہے۔ملک میں بیروزگاری کا گراف تاریخی حدوں کو چھو رہا ہے۔گزشتہ تین برس کے دوران کوئی ایک منصوبہ نئے روزگار پیدا نہیں کر سکا۔ مہنگائی کا ذکر کرنا ہی غیر ضروری کہ عوام مہنگائی کے بوجھ سے ایسے جان کنی کے عالم میں ہیں، جہاں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے، اور حکومت کو مخالفین کی کردار کشی اور اُن کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے ہی فرصت نہیں۔ ایک طویل عرصہ قید میں گذارنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے مفاہمتی حلقہ کے نمائندے شہباز شریف کی ضمانت منظور ہو چکی۔
اس ضمانت کے حوالے سے بھی ایک نئی کہانی عوام کے سامنے آئی۔ دو ججوں پر مشتمل ہائی کورٹ لاہور نے ان کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے کا اعلان کیا اور دوسرے ہی روز اُن میں سے ہی ایک جج نے اختلافی نوٹ لکھ کر ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ جاری کیا، یوں پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک منفرد اور نیا منظر عوام کے سامنے آیا۔ معاملہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تک گیا،انہوں نے تین ججوں پر مشتمل ایک نیا بنچ تشکیل دیا،جس نے ضمانت کے حق میں متفقہ فیصلہ دے دیا۔اب میاں شہباز شریف تو رہا ہیں،لیکن ان کے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی جائیداد کی نیلامی کا فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔یوں معاملہ نازک سے نازک تر ہوتا جا رہا ہے،
لیکن اس سارے قضیہ میں ایک دلچسپ خبر جمہوریت کے لئے سوچ کو فکر میں مبتلا کرنے والی ہے وہ یہ کہ ہمارے خاندان کس طرح دولت سمیٹنے میں لگے رہے۔ نہرو خاندان سے لے کر مودی تک اگر بھارت کی سیاسی قیادت اور ہماری سیاسی قیادت کا مقابلہ کیا جائے تو سر شرم سے جھک جائے گا۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو کی مالی معاملات کی ایمانداری اور کہاں آصف علی زرداری کی اقتصادی سلطنت ملک میں ہر لمحہ بڑھتی ہوئی جبر اور غربت کی حصار بندی۔ عوام کے لئے ایک کلو چینی کی خریداری کے لئے شناختی کارڈ اور ہاتھوں پر سیاہی ملی جا رہی ہے اور یہ سب ”ریاست ِ مدینہ“ کا حکمران کر رہا ہے، جو آکسفورڈ کا طالب علم رہا ہے اور جسے یہ بھی خبر نہیں کہ اس دور میں ریاست کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ریاست تو نوآبادتی دور کا ایک تصور ہے جسے نیم سرمایہ دارانہ اور نوآبادیاتی حکمران نے جنم دیا ہے۔ اس سے قبل شہنشائیت تھی، سلطنت تھی اور خلافتیں تھیں۔
خدایا ہمیں کیسے حکمران اور محافظ تو نے عطا کئے ہیں، آئے روز کابینہ میں وزارتوں کے نئے تجربے ہو رہے ہیں، سڑکوں پر خون بہتا ہے تو اس معاملے کو نیم دلی سے حل کرنے کی طرف قدم بڑھتا ہے، جسے بہت پہلے حل ہو جانا چاہئے تھا،جس مسئلے نے پوری قوم کو اذیت میں مبتلا رکھا اب اس مسئلے کے حوالے سے اور اسے بنیاد بنا کر تحریک چلانے والوں کے ساتھ ایک نئے طرزِ عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے بارے میں وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے دوران ریمارکس واضح کرتے ہیں کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ہر رمضان کے آغاز سے ہی ملک میں مہنگائی کی نئی لہر در آتی ہے،نہ صرف موجودہ، بلکہ سابقہ حکومتیں بھی اس پر قابو نہیں پا سکتی تھیں۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت تو واضح طور پر تاجر دوست حکومت ہوتی ہے،لیکن عمران خان کی حکومت نے تو عوام کی زندگی بہتر بنانے کے وعدے کئے تھے، اب یہی حکومت ہے کہ لوگوں کو ماہِ رمضان میں چینی کی خریداری کے لئے قطاریں لگانا پڑتی ہیں،سبزیوں اور پھلوں کے نرخ شاید اس لئے بہت زیادہ اوپر نہیں جا سکے کہ عوام کی قوتِ خرید ہی ختم ہو رہی ہے،
کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں، دیہاڑی دار طبقہ ہی نہیں، نام نہاد سفید پوش افراد بھی حکومت کی لنگر گاڑی کا انتظار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا پر بھارت کے کورونا حملے کی یلغار ہے۔ یوں جیسے پاکستان نیوزی لینڈ بن چکا ہے،ہر ہسپتال میں بستر کم پڑ رہے ہیں، آکسیجن کی کمی کا خطرہ ہے اور سانس لینے کے لئے وینٹی لیٹر کم پڑ چکے ہیں، صرف غریب غربا ہی نہیں، حکمران طبقے کے افراد کی اموات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ بڑے فخریہ انداز میں ترقی کے ہوش ربا افسانے سنا رہی ہے اور شہروں دیہاتوں سے اجتماعی خود کشیوں کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، خان صاحب کرپشن کے حوالے سے ہر لمحہ سیخ پا نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم اور وزراء کی تقریروں کے حوالے سے ایک قطعہ جناب صاحبزادہ سخی الدین اختر ہاشمی کا ہے:
مَیں نے دیکھے ہیں ہر سمت خزاں کے سائے
لوگ کہتے ہیں کہ گلشن میں بہار آئی ہے
اے خدا مجھ سے یہ احساس کی دولت لے لے
میرا دِل بھی تو بہاروں کا تمنائی ہے