سندھ ہر موسم کا بڑا دریا ہے، جنوب ایشیائی ثقافتوں میں اس کا ذکر بڑی آن بان اور شان سے کیا جاتا ہے

سندھ ہر موسم کا بڑا دریا ہے، جنوب ایشیائی ثقافتوں میں اس کا ذکر بڑی آن بان اور ...
سندھ ہر موسم کا بڑا دریا ہے، جنوب ایشیائی ثقافتوں میں اس کا ذکر بڑی آن بان اور شان سے کیا جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف :شہزاد احمد حمید
 قسط:4
میرے ہمسفر وہی پرانے اور آپ کے شناسا ہیں ماسوائے لالہ اعجاز کے کہ وہ جولائی 2016ءمیں اس دار فانی سے اپنے ابدی گھر جا چکے ہیں۔ اللہ نے ضرور ان کو اپنے ہاں بلند مقام دیا ہوگا کہ لالہ اعجاز جیسے درویش منش، رحم دل اور مخلص لوگ اللہ کے ہاں بھی بلند درجہ پاتے ہیں۔ اللہ اُن کی قبر کو منور کرے آمین۔ دوستوں کی قبریں دراصل دلوں کے داغ ہوتی ہیں۔ چوہدری ریاض احمد، ملک مشتاق ساتھ ہیں جبکہ لالہ اعجاز کی یادیں۔ کچھ نئے ہمسفر بھی ہیں جیسے میرے پھوپھی زاد بھائی قیس مظہر حسین۔ پاک فضائیہ کے سابق لڑاکا ہوا باز۔ پاک بھارت معرکہ 1965 ءکے غازی۔ میرا چھوٹا بھائی شہباز احمد حمید۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹا لیکن امارت میں بڑا ہے۔ رحم دل،فیاض اور سیدھا سادہ۔ میرا برادر نسبتی عمران انور یہ نیک اور ہنس مکھ ہیں اور عدنان دلاور تابعدار اور ذمہ دار۔البتہ اس سفر میں ایک اور نئی مسافر بھی ہیں۔ اس طلسماتی کردار سے ملاقات بھی عجب بہانہ تھی۔جس کا ذکر آگے ہو گا۔ فزکس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ ذات کی کشمیرن، وعدے کی سچی،من کی کھری، جو ٹھان لیا سو ٹھان لیا۔ زندگی جینے کا سلیقہ جانتی ہیں۔خود میں ایسی انجمن کہ بہت سوں کا ان کی انجمن میں آنے کو دل کرتا ہے مگر کم ہی خوش بخت ہیں جو ان کی انجمن میں جگہ پا سکتے ہیں۔ انتخاب میں محتاط مگر بہت خوب ہیں۔اس پرُاعتماد، خوش لباس، خوش گفتار،پری چہرہ کو لوگ ”عافیہ“ کے نام سے جانتے ہیں مگر وہ اس کتاب کی”نین“۔ سفر میں ان کی موجودگی وسیلہ ظفر ہے۔ نین کی نظر میں شرافت اور چہرہ پر حیا کا اندازہ مجھے پہلی ہی نظر میں ہو گیا تھا۔ اس کی صاف دلی اور خوش خلقی کی علامت وہ مسکراہٹ ہے جو ہمیشہ اس کے لبوں پر کھیلتی رہتی ہے۔ چہرہ کی سنجیدگی اور چشم و آبرو کی ساخت اس کے تدبر اور تنظیمی قابلیت کا پتہ دیتی ہیں۔ خوبصورت چہرے کی بولتی آنکھوں میں جھانکیں تو گم زمانے ہو جائیں۔ حاضر جوابی، صاف گوئی، اصولوں سے محبت، کام سے لگن اور ایمانداری اس کی ایسی خصوصیات ہیں جو اب لوگوں میں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ 
دریائے سندھ ہر موسم کا بڑا دریا ہے۔ ہر سال اس میں دریائے نیل سے دوگنا پانی آتا ہے۔ خیرہ کن پہا ڑی چوٹیوں، سنگلاخ چٹانوں اور پاکستان کے میدانی علاقوں سے بہتا یہ عظیم دریا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ میدانی علاقوں میں اس کی روانی دیکھنے لائق ہے۔ جنوب ایشیائی ثقافتوں میں اس کی ثقافت کا ذکر بڑی آن بان اور شان سے کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ زمین کی سیرابی کے ساتھ ساتھ اس کی آغوش میں لال و گوہر بھی پیوستہ ہیں۔ پاکستان کی زرعی معیشت کی ترقی کا بڑا انحصار موسم کے بعد دریائے سندھ کے پانیوں پر ہے۔ 
بلند و بالا تبت سے نکلنے والے اس دریا کے راستے میں حائل عظیم پہاڑ پیچ دار راستوں سے اسے ہانکتے لاتے ہیں۔ سکردو اور ہوند کے مقامات پر اسے پھیلنے کی مختصر سی جگہ ملتی ہے۔پنجاب اور سند ھ کے میدانوں میں پہنچ کر ہانکے جانے کی بجائے یہ اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ کالا باغ اور اپنے ڈیلٹا کے درمیان یہ انسانوں، جانوروں اور فصلوں کو پانی کی صورت زندگی عطا کرتا ہے اور ان میں تباہ کن طغیانی کی شکل میں موت بھی تقسیم کرتا ہے۔ ان میدانی علاقوں میں سردی کے موسم میں یہ تنگ دھاروں کی صورت بہتا ہے جس میں جا بجا چھوٹے چھوٹے جزیرے اور ریت کے بالے سر اٹھائے نظر آتے ہیں جبکہ گرمی کے موسم میں یہ اس قدر پھیل جاتا ہے کہ ایک کنارے سے دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دیتا۔ بقول ایک سیاح ؛
”یہ کوئی دلچسپ منظر نہیں لیکن دریا خود ایک پر شکوہ منظر ہے۔“
 ہمالیہ کو دیکھ کر سندھو کے حجم پر حیران ہونا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس دریا کا ایک احترام ضرور ہے جسے بنانے اور پانی دینے کے لئے دنیا کے بلند ترین مقامات سے تقریباً 10 ہزار ندیاں،چشمے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ 
میں نے جو دیکھا، محسوس کیا، صاف صاف لکھ دیا ہے۔ اللہ نے اس ملک کو بہت نعمتوں اور دلکش قدرتی حسن سے نوازا ہے۔ بہت کم لوگ اللہ کی ان فیاضیوں کا لطف اٹھانے ملک کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سیاحت کے لئے اپنا مزاج بنائیں۔سیاح بنیں۔ زندگی میں کم از کم ایک بار بھر پور انداز میں کسی مہم کا حصہ بنیں، یقین کریں آپ کی زندگی اورسوچ دونوں کا انداز بدل جائے گا۔آپ پہلے سے زیادہ اللہ کے شکر گزار ہو جائیں گے۔خود کو احساس کمتری سے باہر نکالیں۔ اپنا ملک دیکھیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ دنیا کا سب سے خوبصورت ملک ہے۔ یاد رکھیں”دور کے ڈھول سہانے“ کی کیفیت اور صورت کا اطلاق ہر جگہ نہیں ہوتا۔ ہر مسافر اور سیاح کا انداز فکر دوسروں سے الگ ہوتا ہے اور ویسے بھی مسافرت اور سیاحت دشواریوں سے آراستہ نہ ہو تو سفر کا لطف کیسا۔ ہر افواہ اور ہر خدشے کو ذہن سے جدا کرکے ہوا کی سنگت اختیار کریں۔
اس حقیقت سے بھی عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ قدرت کی فیاضیوں، عنایتوں اور رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آوارہ گرد ہو نا بھی ضروری ہے۔ ہاں آوارہ گردی کا ذوق، سیاحت کا شوق سر پھرے آوارہ گردوں کی پہچان ہوتا ہے۔ اپنی پہچان بنائیں اور سیاحت کے سرسوتی سپنوں کی تعبیر کی تلاش میں پاﺅں میں چکر باندھ لیں سو ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں سچا سائیں قدرت کے حسین رنگوں کے ہر انداز و اعجاز سے محبت کا جذبہ کوٹ کو ٹ کر بھر دیتا ہے۔ دراصل یہ اللہ سے محبت کا ایک انمول ذریعہ بھی ہے سو اپنے سر کی چاندی کو کسی آئینہ خانے کی صد رنگ دنیا میں گھول کر محبتوں کے بول بولئے۔ (جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -