امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔آخری قسط
یہ منصوبہ اسی صورت کامیاب ہو سکتا تھا جب خاندان کے 18 افراد دیت پر راضی ہو جاتے ۔ اسی لئے آئی ایس آئی کے لوگوں نے وکیل کی مدد سے خاندان کے ہر فرد پر حسب ضرورت دباو ڈالا لیکن ان میں سے کئی افراد نے مزاحمت کی ۔ان میں سے ایک مقتول کا بھائی تھا جس پر مذہبی سیاسی راہنماؤں نے انصاف لینے کے لئے زور ڈال رکھا تھا ۔ وہ کئی ہفتوں تک راضی نہیں ہوئے ۔
آئی ایس آئی کے لوگوں نے14 مارچ کو مداخلت کی اور 18 لوگوں کو جیل میں بند کر دیا ۔ جس دن میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا اس روز تک انہیں قید رکھا گیا ۔ 16 مارچ سے ایک رات قبل مقتول کے خاندان کے ان افراد کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ دیت قبول کر لیں، اگر وہ دیت قبول کر لیں تو انہیں ایک بڑی رقم دی جائے گی ، دوسری صورت میں نتائج اگلی صبح ان پر واضح کر دیے گئے ۔ انہیں کئی گھنٹے تک گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور میڈیا کے سامنے ایک لفظ بھی بولنے سے سختی سے منع کیا گیا۔16 مارچ کو عدالت کے سامنے دیکھا گیا کہ ان خواتین کی حالت بہت پتلی تھی اور وہ رو رہی تھیں ۔ ان کے نئے وکیل ارشاد نے عدالت کے سامنے ان کی دستخط شدہ دستاویز پیش کیں جن میں مقتول کے خاندان کے 18 افراد کی جانب سے ملزم کو معاف کرنے اور دیت لینے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جج نے خاندان کے افراد کو اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات دکھانے کو کہا اور پھر ان کو رسید دی گئی جس میں خاندان کے 18 افراد کو دی جانے والی رقم لکھی تھی ۔ انہیں فی کس ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر جبکہ مجموعی طور پر 23 لاکھ 40 ہزارڈالر دیے گئے جو پاکستان کی تاریخ میں خون بہا کی سب سے زیادہ رقم تھی۔
ہر رشتہ دار کی جانب سے دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد جج نے ان سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی کو بھی اس کے لئے مجبور تو نہیں کیا گیا ؟ اٹھارہ کے اٹھارہ افراد نے نفی میں جواب دیا ۔ اس کے بعد جج نے ڈیفنس اور پراسیکیوٹر کو بھی یاد دلایا کہ وہ چاہیں تو اس پر اعتراض کر سکتے ہیں لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا ۔ اس دن مقتول کے خاندان کو سمجھانے کے لئے کارروائی اردو میں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے مجھے کارروائی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مجھے کارمیلا نے بتایا کہ تمام افراد نے دیت قبول کر لی ہے اور تم اب رہا ہونے والے ہو ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کب؟ تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی یہ ساری کارروائی مکمل ہو جائے ۔ باہر گاڑی کھڑی ہے اور ڈیل نامی ایک شخص تمہیں ایئرپورٹ لے جائے گا جہاں تمہیں میڈیکل ٹیسٹ کی ضرورت ہو گی ۔ اس کے بعد تم جہاز میں یہاں سے نکل جاؤ گے اور اس کے بعد تمہیں گھر بھجوایا جائے گا۔ میں حیرت سے اس کی بات سن رہا تھا ۔ میں اتنی جلدی اس ساری کارروائی کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔ ہیلری کلنٹن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے کے لئے پیسے نہیں دیئے ۔ ایک لحاظ سے وہ تکنیکی طور پر درست تھیں کیونکہ یہ پیسے آئی ایس آئی نے دیے تھے اور امریکا نے بعد میں انہیں ادا کر دیئے تھے۔
جب میں باہر گاڑی کی طرف آیا تو کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھا کیونکہ میں نے اس سے قبل ڈیل کو نہیں دیکھا تھا لیکن سفارت خانے کی جانب سے متعین ڈاکٹر بھی وہیں موجود تھا ۔ دو اور افراد بھی وہاں تھے جو پاکستانی معلوم ہوتے تھے ۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ ایک سیٹ پر ایک کرنل بھی بیٹھا ہوا تھا اور ڈرائیور بھی امریکی سفارت خانے سے تھا۔ ایئرپورٹ پہنچ کر مجھے ڈیل نے بتایا کہ اب پاکستانی ڈاکٹر تمہارا معائینہ کرے گا جس کے بعد ہم جہاز میں بیٹھ کر چلے جائیں گے ۔ اس کام میں کچھ دیر ہو گئی جس کے بعد ڈیل نے مجھے کپڑے بدلنے نہیں دیے اور کہا کہ جہاز میں تبدیل کر لینا، ابھی ہم نے یہاں سے نکلنا ہے۔وہاں دو انجنوں والا جہاز کھڑا تھا ۔ جس وقت میں جہاز کی جانب بڑھ رہا تھا تب بھی اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔ سوٹ میں ملبوس ایک بوڑھا آدمی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا تھا ۔ اس کے پیچھے سے ایک خاتون آئی اور اس شخص کا باقاعدہ تعارف کروایا ۔ وہ پاکستان میں متعین امریکی سفیر کیمرون تھے ۔ میں نے انہیں برادرانہ طور پر گلے لگایا ۔ انہوں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ میرا بھاری بیگ اٹھا کر خود جہاز تک لیجانے پر اصرار کرنے لگے ۔ وہ بھی میری سکیورٹی کے لئے جہاز میں میرے ساتھ جا رہے تھے ۔ سفیر نے دوران پرواز سیٹلائیٹ فون سے متعدد فون کالز کیں ۔ ایک کال کے دوران انہوں نے مجھے فون دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن لائن پر ہیں ، ان سے بات کریں ۔ میں نے گلا صاف کیا اور فون پر بات کی جس پر ہیلری نے کہا کہ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ محفوظ ہیں اور ہمیں آپ پر فخر ہے ۔ میں نے بہتر ٹیم فراہم کرنے اور رہا کروانے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
11 اپریل کو جنرل پاشا امریکا آئے اور ایڈمرل مائیک مولن کو پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا لیکن اس ملاقات میں جو پیش رفت ہوئی وہ تین ہفتوں بعد اس وقت ختم ہو گئی جب امریکی فورسز نے ایبٹ آباد میں موجود کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا ۔ پاکستانی حکام نے توقع سے زیادہ سخت ردعمل دیا اور اسے پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا لیکن جب گرد بیٹھی تو ایک بار پھر ذمہ داری انہی پر تھی کہ بتائیں کیسے دنیا کا خطرناک ترین دہشت گرد 6 سال سے ان کی ممتاز ملٹری اکیڈمی سے ایک میل کے فاصلے پر رہ رہا تھا۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے تین ہفتوں بعد پھر خراب ہو چکے تھے۔!!
(ختم شد)