انتخابی بیانیے کی تلاش
الیکشن کمشن نے نئی حلقہ بندیوں پر کام تیز کردیا ہے۔ جو اعلا ن کے مطابق 30 نومبر تک پایہ تکمیل تک پہنچنے کا امکان ہے۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ، پی ڈی ایم کی حکومت کا تقریبا ًڈیڑھ سال اقتدار میں رہنا اور بین الاقوامی معاشی دباؤ سے ملک کی جو معاشی صورتحال بنی ہے، اس کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے آنے والی حکومت کو اچھی خاصی محنت کرنا ہوگی۔ اسے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک افراد کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا، تاکہ پاکستان کے پسے اور کچلے ہوئے طبقے کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے کوئی عملی کام کر کے دکھایا جا سکے۔پیشتر اس کے کہ میں اصل موضوع کی طرف آؤں مجھے ان بڑی سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں سے درخواست کرنی ہے کہ وہ عوامی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا جامع اقتصادی پروگرام عوام کے سامنے لائیں، جس سے قومی مسائل حل ہوسکیں اور مایوسی کے شکار عوام کو امید کی راہ دکھائی جاسکے۔ صرف سابقہ کارکردگی،اپنی کامیابیوں کے قصے سنانے اور ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے جیسی روایتی سیاست کو زیر بحث لانے کی بجائے کسی عملی کام اور قومی لائحہ عمل کی نشاندہی کریں۔ آج ملک کے جو اقتصادی اور سیاسی حالات بن چکے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ عوام کی بھوک اور افلاس کو سامنے رکھ کر ایک مکمل اور کامل بلیو پرنٹ لے کر عوام کے سامنے آئیں، تاکہ سابقہ منشور پر عمل کرنے کے وعدے اور گذشتہ کارکردگی کو کامیابی کا نام دے کر لوگوں سے ووٹ لینے کی استدعا نہ کرنی پڑے۔
میں کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جن کا عوام پر دہائیوں پر محیط اثر و رسوخ رہا ہے، وہ بھی اپنے منشور پر نظر ثانی کریں، اب وہ حالات نہیں جو پہلے تھے۔ اور نہ ہی پہلے جیسے بھولے بھالے عوام ہیں، جو جذباتی نعروں پر ووٹ دینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔ موجودہ حالات اور عوام کی مشکلات،توانائی کا بحران، پٹرولیم مصنوعات کی گرانی اور اشیائے خورد نوش کی نایابی،غریب عوام کے منہ کا نوالہ،جسم کا لباس، بچوں کی تعلیم اور صحت کا حق بھی چھین رہی ہے۔مجھے افسوس ہوتا ہے جب بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سابقہ ادوار کی کامیابیوں کو سیاسی بیانیہ بنا کر میدان انتخاب میں اترتی ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان اس وقت بین الاقوامی دباؤ میں ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے پر نگران حکومت کی طرف سے غریبوں کے لئے سبسڈی یابجلی کے بلوں کی قسطیں کرنے کی استدعا مسترد ہونے کے بعد تو شک نہیں رہا اورثابت ہوگیا کہ آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ا ن سے ریلیف کے لئے منت سماجت سے بھی ہمیں کچھ نہیں ملے گا۔ ہم اقتصادی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاچکے ہیں۔بڑی سیاسی جماعتوں کو آج کے حالات سامنے رکھتے ہوئے مختلف ایشوز پر اوپن بحث و مباحثہ کرنا چاہیے کہ ہم کس طرح ملکی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران کا حل نکال کر عوام کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ اور یہ چیز تو اب سامنے آ چکی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی کہا ہے اور اس کے اثرات پاکستان میں روپے کی قدر میں اضافے کی شکل میں نظر آر ہے ہیں، لیکن یہ ناکامی ہے۔ گزشتہ دنوں افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر اور سابقہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اقتصادی لائن کا نقشہ پیش کیا ہے، لیکن اس کے بعد اس پلان کے بارے میں جو خاموشی ہے، میں اسے مجرمانہ فعل سمجھتا ہوں کیونکہ کہیں نہیں بتایا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان سے کتنی زمین زراعت کے لیے سعودی عرب،قطر اور دیگر ممالک کے حوالے کیے جانے کی بات ہوئی ہے جبکہ معدنیات کے حوالے سے صوبہ بلوچستان میں کچھ کام کی ابتدا جھلکیوں کی صورت میں دیکھا گیا ہے، لیکن زراعت کے شعبے میں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کن ممالک سے زرعی آلات اور مشینری پاکستان میں آرہی ہے یا پہنچ چکی ہے؟ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں سونے چاندی کی کانوں پر توجہ دی جاسکتی ہے۔اس کے نتائج فوری عوام کے سامنے آجائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف صوبہ سندھ کے اندر گیس کی دریافت اور قدرتی کوئلے پر جو کام ہورہا ہے، اس کو بھی عوام کے سامنے رکھ کرقومی اعتماد بہتر کیا جاسکتا ہے۔ حوصلہ افزائی کے لیے ہمیں جو بھی ڈویلپمنٹ ہو وہ پاکستان کے عوام کے سامنے رکھنی چاہیئے تاکہ انہیں احساس ہو کہ حکمران طبقہ عوامی بہبود اور ترقی کے لیے جو اقدامات کر رہا ہے وہ اس میں حصہ دار ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے شعبے ہیں کہ جن میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے کرنسی کی سمگلنگ یا اشیائے خورد نوش کی نقل و حمل روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے اور ان کے کیا نتائج نکلے؟ کیونکہ پاکستان کا کوئی ایسا حصہ نہیں ہے جو سرمایہ داروں اور مفاد پرست لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی پالیسیوں کے کوئی مثبت اثرات نظر نہیں آئیں گے۔ اگر حکومت،پاکستان کے عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے تو قوم کو قدم بقدم آگاہ بھی کرے۔
میں اپنے پڑوسی ملک اسلامی جمہوری ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جنہوں نے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے خطاب کیا۔انہوں نے ابراہیم رئیسی کی حکومت کی کامیابیوں پر ان کو مبارکباد دی۔جبکہ عوام اور حکومت کے درمیان جو خلیج ہے،اس کی بھی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ حل بھی تجویز کیا۔انہوں نے خارجہ امور میں ایرانی حکومت کو پہلے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور نشاندہی کی کہ کن کن شعبہ ہائے خارجہ امور میں کامیابی ہوئی اور ان شعبہ جات کا بھی ذکر کیا،جہاں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک کوئی اتنا دورتو نہیں ہے کہ ہم اس کی ترقی اور نظام حکومت کو بہتر طریقے سے جانچ نہ سکتے ہوں اور اختیار نہ کرسکتے ہوں۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے نظام سلطنت کے اعلیٰ عہدیدار مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو سامنے رکھ کر عوام کو ساتھ لے کر چلیں۔مجھے خوشی ہوگی کہ اگر آئندہ انتخابات میں کامیاب ہو کر برسر اقتدار آنے والی حکومت یہ طرز عمل اختیار کرے۔ عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلے تو میں نہیں سمجھتا کہ انتخابی میدان میں آنے والے کھلاڑیوں کو نئے بیانیے تشکیل دے کر عوام کو امید دلانے کی ضرورت ہوگی کہ ان کی مشکلات کم ہو جائیں گی۔ اس لئے ہمیں ووٹ دیں۔آنے والے دنوں میں جب تک حکمران اپنے ملک کی ترقی کے لیے جو اقدامات سوچ کر بیٹھے ہیں ان کا اظہار ایک مہینے میں کریں۔ ہر شعبہ زندگی میں مطلوب اقدامات کو عوام کے سامنے رکھیں۔اگر عوام کو احساس ہو جائے گا کہ یہ پارٹی مخلص ہے تو آپ کے بیانیے پر توجہ نہ دیتے ہوئے آپ کے اقدامات جو آپ پیش کر رہے ہیں، انہیں سامنے رکھ کر اپنے حق رائے دہی کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکیں گے۔ اور اگر آپ اس گومگو کی حالت میں اپنے اپنے بیانیوں کو تشکیل دینے اور اس کے اجرا کو ممکن بنانے کا کوئی پروگرام رکھتے ہیں تو وہ کامیاب ہونا مشکل ہے۔یہ کہنا کہ ہم نے ماضی میں عوام کے لیے یہ کیا تھا اور آئندہ یہ کریں گے، یعنی ©”تھا اور گے“ میں میلوں کا فاصلہ یا سالوں کا عرصہ ہے۔جب تک عوام کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو وہ بھی اس سیاسی جماعت کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔