ایک مستقل ساتھی اور رفیق ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے، اس ساتھی کو ایک بہتر نام سے پکارنے کی خاطر اسے ”آپ کی اپنی موت“ کا نام دے لیجیے

 ایک مستقل ساتھی اور رفیق ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے، اس ساتھی کو ایک بہتر نام ...
 ایک مستقل ساتھی اور رفیق ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے، اس ساتھی کو ایک بہتر نام سے پکارنے کی خاطر اسے ”آپ کی اپنی موت“ کا نام دے لیجیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:6
 اپنی ذات کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لیجیے
”عظمت حاصل کرنے کا طریقہ اور راز آپ کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے آپ مشکل حالات میں بھی اپنے لیے کامیابی اور ترقی کی راہیں تلاش کر لیتے ہیں۔“
اپنے کاندھے کے اوپر سے اچک کر دیکھیے! آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کا ایک مستقل ساتھی اور رفیق ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ اس ساتھی کو ایک بہتر نام سے پکارنے کی خاطر اسے آپ ”آپ کی اپنی موت“ کا نام دے لیجیے۔ آپ اپنے اس ملاقاتی سے یا تو خوفزدہ ہو سکتے ہیں یا پھر اسے اپنی ذاتی کامیابی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ خبر اور ادراک رکھتے ہوئے کہ موت کا کچھ علم نہیں کہ کب وارد ہو جائے اور زندگی اس قدر مختصر ہے کہ سانس لینے کی نوبت بھی نہ آئے، اپنے آپ سے یہ سوالات کیجیے:
”درحقیقت جو میں کام کرنا چاہتا ہوں، کیا مجھے اس سے اجتناب کرنا چاہیے؟“
”کیا مجھے اپنی زندگی دوسروں کی مرضی و منشا کے تحت گزارنی چاہیے؟“
”کیا مال و متاع کا حصول و خواہش اہم نوعیت کی حامل ہے؟“
”کیا ان کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے؟“
اس ضمن میں آپ کے متوقع جوابات کو مختصر طور پر چند الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
”اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریئے اور محبت و چاہت سے لطف اندوز ہوں۔“
یا تو آپ غیرضروری طور پر موت سے خوف محسوس کر سکتے ہیں یا پھر ایک بھرپور اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
اپنی زندگی اور ذات کی ذمہ داری دوسروں کے ہاتھ میں دینے کی ایک مثال ملاخطہ کیجیے اور ٹالسٹائی کے ایوان آئیلچ کے وہ الفاظ سنیے جن میں وہ اپنے اس ماضی کا جائزہ لیتا ہے جس کی باگ ڈور مکمل طور پر دوسروں کے ہاتھ میں تھی۔
”اگر میری تمام زندگی غلط طور پر گزری ہے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟“ اسے یہ معلوم ہوا کہ جو چیز اس سے قبل قطعی ناممکن تھی یعنی اس نے اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق نہیں گزاری، ممکن ہے کہ پھر بھی صحیح اور درست ہوتی۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی ناتمام اہم خواہشات جنہیں اس نے فوراً ہی دبا دیا تھا، ممکن تھا کہ وہی صحیح اور درست ہوتیں اور باقی سارا کچھ جھوٹ اور غلط ہوتا۔ مزید یہ کہ اس کے تمام پیشہ وارانہ فرائض و ذمہ داریاں، تمام معمولات زندگی، سماجی اور پیشہ وارانہ مفادات، ممکن تھا کہ سب جھوٹے اور غلط تھے۔ ا س نے اپنی ذات کی ان تمام چیزوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور چانک اسے ان چیزوں میں کمزوریو ں اور خامیوں کا احساس ہوا، جن چیزوں کا وہ دفاع کر رہا تھا۔ اس کے پاس کوئی بھی چیز ایسی موجود نہ تھی جو قابل دفاع تھی……“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -