لیہ ،جہاں شاپرز میں شراب بکتی ہے حضور!
لیہ میں گڈ گورنس یہ ہے کہ یہاں پ پینے اور پلانے والوں کو کھلی چھٹی ہے۔یک ہفتہ ہو گیا ہے گاہے گاہے ،مجھے ضلع لیہ کے مختلف شہروں چوک اعظم ، لیہ شہر ، فتح پور ، کروڑ لعل عیسن ، جمن شاہ ، کوٹ سلطان ، بھاگل ، چوبارہ سے چند ایک درد منداحباب ای میلز بھیج رہے ہیں اور کہا ہے کہ ضلع لیہ میں پولیس گردی اور بڑھتے ہوئے شراب نوشی کے کلچر پر پھر قلم اُٹھائیں ۔۔۔۔۔۔۔ حالات یہ ہیں کہ لیہ میں پولیس گردی ، شراب نوشی کلچر کے ساتھ ساتھ اب تو ڈکیتی کا کلچر بھی عام ہو گیا ہے ، بھتہ خوری کی لت کراچی سے سفر کرتی ہوئی لیہ بھی پہنچ چکی ہے۔ آئے دن چلتے چلتے راہ گیروں سے اُن کی جمع پونجی چھین لینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ، پولیس بھنگ پی کے سو رہی ہے یا پھر اُس نے سردیوں میں ’’ستو ‘‘ پی رکھے ہیں ۔ہمارے ضلع لیہ کے ’’چند ‘‘ نادان صحافی چند ٹکوں کی خاطر آئے روز سوشل میڈیا پر نکمی اور عوام کے مسائل سے نا آشنا بیورو کریسی کی ’’خوشامد ‘‘ کرتے رہتے ہیں اُن کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے کبھی ڈی پی او ، ڈی سی او اور کبھی کبھی کسی نا لائق ایس ایچ او کی من گھڑت تعریف کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں انجمن تاجران کی سابق قیادت بھی محض فوٹو سیشن میں لگی رہی ہے۔ جب تک نام نہادقائدین مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کی چھتر چھاؤں تلے خوشامدی گیت گاتے رہیں گے تاجران کے حالات کبھی بھی نہیں سُدھر سکتے ۔۔۔۔۔جب سے ہم نے شعور کی دہلیز پار کی ہے اُس وقت سے ہم نے ’’پولیس کا ہے فرض ، مدد آپ کی ‘‘ کا نعرہ سُن رکھا ہے مگر پولیس دُکھی اور لاچار انسانیت کی خدمت کی بجائے معاشرے کے چوروں ،وڈیروں ،جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ،زر داروں ،زور داروں ، ، رسہ گیروں ، ڈاکو ؤں ، منشیات فروشوں ، دلالوں ، بد معاشوں کی ’’خدمت ‘‘ کا فریضہ بڑے احسن انداز سے سر انجام دیتی ہے۔موجودہ پولیس کلچر کی وجہ سے تھا نے آماجگاہ کی بجائے انسانیت کے لیے ’’اذیت گاہ ‘‘ کا روپ دھار چکے ہیں اور تھانوں میں جس طرح ایک شریف اور معزز شہری کی عزت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں دیکھ اور سُن کر شرافت کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی کانپ اُٹھتی ہے ،کم از کم لیہ میں تو یہی حالات ہیں ۔شراب پی کر مرنے والوں کے واقعات سن کر خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قانون والوں نے خود پی رکھی ہے۔
شہر لیہ کے مختلف محلے جس میں محلہ بلوچاں والا ، ہانس کا لونی ، قادر آباد ، محلہ واگھے والا ، محلہ فیض آباد ، محلہ عید گاہ ، محلہ نور آباد ، محلہ منظور آباد، محلہ گڑیانوی والا وغیرہ شامل ہیں اور تو اور تھانہ سٹی کی چھتر چھاؤں میں سرِ عام شراب فروخت ہو رہی ہے اور اِن شرا ب فروشوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ وہ نوجوان نسل کو کس طریقے سے چند ٹکوں کی خاطر تباہ و بر باد کر رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نہ جانے کیوں خاموش ہے؟ اور وہ کون سی مجبوری ہے جس کی بنیاد پر مقامی ایس ایچ او صاحب ایکشن نہیں لے رہے ؟ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بعض محلے تو ایسے بھی ہیں جہاں 24گھنٹے شراب نوشی اور شراب فروخت کا دھندہ عروج پہ رہتا ہے اور لوگوں نے اپنے گھروں کے اندر شراب کی بھٹیاں قائم کی ہوئی ہیں۔ دھڑا دھڑ ’’شاپر ز ‘‘ کے ذریعے فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور آج کل شا دیوں کا سیزن ہے تو شادیوں کے مختلف فنکشن میں بھی سرِ عام شراب نوشی کا کلچر جاری ہے ۔آج تک کسی بھی ایسے علاقہ میں پولیس کی طرف سے ایکشن نہیں لیا گیا جہاں پر شراب نوشی کا کاروبار عروج پر ہے ، ہاں اگر دو چار لوگوں کو پولیس مقامی معزز شخصیات کی شکایت پر پکڑ بھی لیتی ہے تو راستہ ہی میں ’’مُک مُکا ‘‘ پروگرام پر عمل شروع ہو جاتا ہے اور آج کل تو ایسے ملک دشمن و انسانیت کُش عناصر بھی ہیں جو زہریلی شراب بنا کر لوگوں میں عام کر رہے ہیں اور اس سے کئی گھرانے تباہ ہو رہے ہیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب جنابِ میاں شہباز شریف نے پولیس کلچر کی اصلاح کے لیے اربوں روپے خرچ کر ڈالے مگر تھا نہ کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکی ، وہی چھتر پریڈ ، رولا کریسی کے خوفناک منظر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ، چند مہینے پہلے ڈیرہ غازیخان کی جیل میں جس طرح قیدیوں کے ساتھ انسانیت کُش سلوک کیا گیا اُس سے گوانتا نا موبے جیل کی بھولی ہوئی داستانیں پھر سے تازہ ہو گئیں تھیں۔ضلع لیہ کی پولیس نے بھی ڈیرہ کے اپنے پیٹی بھا ئیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ گزشتہ سال جس طرح تھانہ فتح پور کی بے لگام اور منہ زور پولیس نے چک نمبر 245ٹی ڈی اے کے رہائشی اللہ دتہ کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کرکے اسے بے تحاشہ اپنے روایتی کلچر رولا کریسی اور چھتر پریڈ کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا تھااس کی مثال پورے ڈویژن میں نہیں ملتی ،منہ زور اور بے لگام پولیس کے تشدد کی وجہ سے اللہ دتہ اللہ تعالیٰ کو پیاراہو گیا تھااور اسی طرح کروڑ لعل عیسن کے تھانے میں مظفر گڑھ کے ایک قیدی کے ساتھ جس طرح کا انسانیت سوز سلوک کیا گیا تھا اس سے انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اگر ڈی پی او لیہ نے بے لگام اور اقتدار کے نشہ میں بد مست سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے والی منہ زور پولیس کو لگام نہ ڈالی تو پھر آنے والے دنوں میں کسی بھی غریب کی عزت محفوظ نہیں رہے گی ۔کیا پولیس کا یہی کام ہے کہ وہ گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بد تمیزی کرے اُن کے دوپٹے نوچ ڈالے اور غلیظ گالیا ں دے ؟ جبکہ انہی پولیس والوں کا امتیازی نشان یہ ہے کہ ان کے علاقے میں شراب اور ڈکیتی کو تحفظ حاصل ہے ، شراب فروشوں سے با قاعدہ منتھلی لی جا رہی ہے اور قوم کے اِن نا سوروں کو کھُلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ قوم کی نو جوان نسل کے رگ و ریشے میں زہر اُنڈیل کر پری پلاننگ کے ساتھ اِن کو پہلے ذہنی معذور بنا ئیں اور پھرقبرستان ’’شیخ جلال الدین ؒ ‘‘ پہنچائیں۔یہ ہے گڈ گورنس کا انعام اور حال۔۔۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔