حریت پسند جماعتوں پر پابندی اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں سال 2023ء کے دوران چار کشمیری حریت پسند جماعتوں پر پابندی لگائی۔ ان جماعتوں میں تحریک حریت جموں و کشمیر اور جموں کشمیر مسلم لیگ، دختر ان ملت اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی شامل ہیں۔ دوسری طرف مودی سرکار پارلیمنٹ کو استعمال کرکے بھارتی قوانین میں بڑی تبدیلیاں لارہی ہے جسے مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم کی بدترین لہر کا پیش خیمہ قرار دیا جارہا ہے۔
اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے سربراہ و سینئر حریت پسند رہنما عبدالصمد انقلابی نے تحریک حریت جموں و کشمیر اور جموں کشمیر مسلم لیگ پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اس طرح کے بھارتی ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک نہیں دبے گی۔ بی جے پی حکومت آزادی پسند تنظیموں پر پابندی سے اپنے مذموم مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی اور وہ غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھیں گی۔
بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں جاری فوجی آپریشن میں 2023ء کے دوران چار خواتین اور چار کمسن لڑکوں سمیت 120بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان میں سے 41کو جعلی مقابلوں کے دوران حراست میں شہید کیاگیا۔ بھارتی فوج، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہادتوں کے نتیجے میں 18خواتین بیوہ اور 58بچے یتیم ہو گئے جبکہ اس دوران بھارتی فورسز نے 7خواتین کی بے حرمتی کی۔ بھارتی فورسز نے علاقے میں 13رہائشی مکانات اور عمارات کو تباہ کر دیا۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال اور تشدد سے کم از کم 107 افراد زخمی ہوئے جبکہ، کمسن لڑکوں اور خواتین سمیت 3610افرادکوگرفتار کیا گیا۔ 2023ء کے دوران کم از کم 14کشمیری سرکاری ملازمین کو بی جے پی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق ِ خودارادیت کی حمایت کرنے پر ملازمت سے معطل یا برطرف کردیا ہے، جبکہ کم از کم 72 جائیدادیں جن میں زرعی اراضی، مکان اور دکانیں شامل ہیں۔ضبط کی گئی ہیں۔
بھارت میں ایک ارب30کروڑ آبادی میں بیس کروڑ مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تعصب اور نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت ہی حکمران جماعت بی جے پی کا مقصد اور زندگی ہے۔اس وقت بھارت میں تقریباً ہر ہندوستانی، مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے۔ میڈیا دن رات نریندر مودی کی حکومت کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ بھارت میں ادارہ جاتی یعنی سرکاری سطح پر بھی تعصب پایا جاتا ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یہ تعصب کھل کر سامنے آیا ہے۔ہندوستان میں فرقہ واریت اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت میں مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیاں، مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم، مذہبی آزادی پر پابندیاں اور دن بدن بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات اس بات کاثبوت ہیں کہ گاندھی کا بھارت انتہائی تیزی سے جمہوری سے ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی، وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دہشت گرد سرعام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے جان و مال سے کھیل رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں،پولیس کی سرپرستی میں مسلمانوں کو جسمانی تشدد، امتیازی سلوک، زبردستی نقل مکانی اور گائے کشی پر بہیمانہ طور قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندو دہشت گردوں کو معاشرے کی اکثریت کی حمایت و تعاون حاصل ہے۔بھارتی میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ بھی ہندو دہشت گردوں کے خوف کا شکار ہے۔ مودی سرکار نے نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں بھارت کے اندر بسنے والی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اقوام متحدہ اور عالمی برداری کی اس پر خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔ تجارتی مفادات کی خاطر بھارت میں جاری بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی اور دانستہ و نادانستہ طورپر مذہبی دہشت گردی و انتہا پسندی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ، بڑی طاقتوں خاص طورپر مہذب دنیا کو بھارت میں مودی سرکار کی زیر سرپرستی ہندو دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ لیکر اس کی روک تھام کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہندوستان اسلامو فوبیا کا گڑھ بن گیا ہے اور مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں،جہاں بھارتی مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں نے بھی کیا ہے۔ کونسل فار فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق 2014ء میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور بھارت کی مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 5 فیصد ہے جبکہ بی جے پی میں کوئی مسلمان پارلیمنٹرین ہی نہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا مغربی نگال کی 26 فیصد آبادی مسلمان لیکن پولیس میں حصہ صرف 7 فیصد ہے، آسام کی 31 فیصد آبادی مسلمان، جبکہ پولیس میں صرف 10 فیصد ہیں۔ خود بھارتی ادارہ شماریات کی 2020 ء کی رپورٹ سے مسلمان مخالف اقدامات کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دو فیصد سے بھی کم مسلم خواتین کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔ آکسفیم نے مسلم طبقے کے حوالے سے معاشی ابتری کو رپورٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں مسلمانوں کا حصہ 23 فیصد سے گر کر 15 فیصد رہ گیا ہے جبکہ نجی شعبے میں مسلمانوں کی تنخواہ ہندوؤں سے 49 فیصد کم ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ملازمتی تفریق گزشتہ 16 برس میں 9 فیصد سے بڑھ کر 68 فیصد کی خوفناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ 500 بڑی بھارتی کمپنیز میں صرف 2 فیصد مسلمان اعلیٰ عہدوں پر ہیں۔ مودی سرکار یو سی سی، شہریت، گاؤ رکھشک، طلاق اور حجاب سے متعلق قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔