جج ارشد ملک کی برطرفی سے نوا ز شریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
تجزیہ:سعید چودھری
العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج محمد ارشد ملک کی ویڈیو سکینڈل کی بنیاد پر برطرفی کے بعد سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اس برطرفی سے میاں نواز شریف کو قانونی طور پر کوئی فائدہ پہنچ سکتاہے؟یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ برطرف ہونے والے جج کے فیصلوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوتاہے، مس کنڈکٹ پر جج کی برطرفی سے اس کے فیصلے منسوخ نہیں ہوتے جیسا کہ پی سی او ججوں کے تمام فیصلوں کو برقراررکھا گیاتھا،اس کے باوجودمحمد ارشد ملک کی برطرفی کو میاں نواز شریف کے حق میں ایک ٹھوس جواز کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے،محمد ارشد ملک نے احتساب عدالت اسلام آباد کے جج کے طور پر 24دسمبر2018ء کو میاں محمدنواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس سے بری کردیاتھا،ان دونوں ریفرنسز میں اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتواء ہیں،میاں نواز شریف نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں اپنی سزا کو چیلنج کررکھاہے جبکہ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں میاں نواز شریف کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے۔
آئینی ماہرین جن میں لاہورہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سابق جج اعجاز احمد چودھری بھی شامل ہیں کا خیال ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ویڈیو سکینڈل سے متاثر ہوئے بغیر شہادتوں کی بنیاد پر مذکور اپیلوں کا فیصلہ کرسکتی ہے،ہائی کورٹ نے توماتحت عدالت میں پیش کی جانے والی شہادتوں کو دیکھنا ہوتاہے کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ شہادتوں کے مطابق ہے یا نہیں اوریہ کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں کیا قانونی سقم ہیں،یوں کہاجاسکتاہے کہ میاں نواز شریف کی اپیل کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کور ٹ کے پاس میرٹ پر فیصلہ کرنے کی چوائس موجودہے،اسلام آباد ہائی کورٹ قانونی طور پر ویڈیو سکینڈل اور ارشد ملک کی برطرفی کی بنیاد پر نوا زشریف کو الزامات سے بری کرنے کی پابند نہیں ہے تاہم اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس ویڈیو سکینڈل کو اپیل کے ٖفیصلے کے دوران ضرور زیرغور لائے گی،ارشد ملک کا ویڈیوسکینڈل میاں نواز شریف کیس سے متعلق ہے،یہ اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو احتساب ریفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک محمد قیوم اور جسٹس نجم الحسن کاظمی پر مشتمل بنچ کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد جسٹس ملک محمد قیوم اور اس وقت کے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ راشد عزیز خان کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ سامنے آئی تھی،جس میں بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کی باتیں کی گئی تھیں۔
6 جولائی 2019 ء کوپاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جج ارشد ملک کی ویڈیو جاری کی تھی جس میں جج ارشد ملک اعتراف کررہے ہیں کہ انہوں نے دباؤ کے تحت میاں نواز شریف کو سزاسنائی، بات یہاں تک رہتی تو شاید پنڈورا بکس نہ کھلتا لیکن اس سے اگلے ہی دن 7جولائی 2019ء کوارشد ملک نے پریس ریلیز جاری کردی،جس میں انہوں نے نہ صرف اپنے اوپر لگائے گئے دباؤ کے الزام کی تردید کی بلکہ الٹا یہ الزام لگادیا کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے نمائندوں نے انہیں بارہا رشوت کی پیش کش کی اور تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں،ارشد ملک نے 11جولائی 2019ء کو اس بابت اسلام آباد ہائی کور ٹ میں بیان حلفی بھی داخل کردیا،انتظامی سطح پر پیش کئے گئے اس بیان حلفی کو میاں نواز شریف کی اپیل کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بنادیا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کی خدمات بھی لاہورہائی کورٹ کو واپس کردی تھیں جس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ان کے ویڈیو سکینڈل کو نظر انداز کرنے کے لئے تیارنہیں،ارشد ملک نے متعلقہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروارکھی ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں،ارشد ملک کے خلاف نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ بھی ریمارکس دے چکی ہے،سپریم کورٹ نے تو23 اگست 2019ء کو اس کیس میں یہ بھی قراردے رکھاہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی 2019ء کی پریس ریلیز اور 11 جولائی 2019ء کا بیان حلفی اْن کے خلاف فرد جرم ہے،ارشد ملک کی ایک نازیبا ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی جو مبینہ طور پر ان کی ملتان تعیناتی کے دوران بنائی گئی تھی،ارشد ملک نے نہ صرف اس ویڈیو کا اعتراف کررکھاہے بلکہ اس کی بنیاد پر بلیک میل کئے جانے کی بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے،جیسا کہ سپریم کورٹ ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی کو ان کے خلاف فرد جرم قراردے چکی ہے تو انصاف کا تقاضہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ مقدمہ کے اس پہلو کو نظر انداز نہ کرے،کیوں کہ یہ بیان حلفی اور پریس ریلیز اسلام آباد ہائی کورٹ کے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بن چکے ہیں،جس سے ظاہر ہوتاہے کہ ارشد ملک ایسے معاملات میں ملوث رہے ہیں جو واضح مس کنڈکٹ ہیں،ارشد ملک نے میاں نواز شریف اور ان کے نمائندوں سے ملاقاتوں کا اعتراف بھی کررکھاہے،ان حالات میں یہ کہناقرین قیاس نہیں کہ ارشد ملک نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس اورفلیگ شپ ریفرنس کے فیصلے بغیر کسی دباؤ کے میرٹ پر کئے ہیں،بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے قراردیاتھا کہ تعصب عدالتی فیصلے پر تیرتا ہوا نظر آرہاہے،سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو کو جسٹس ملک محمد قیوم اور جسٹس نجم الحسن کاظمی پر مشتمل ڈویژن بنچ کی طرف سے سنائی گئی سزا کالعدم کردی تھی تاہم انہیں بری نہیں کیاتھا بلکہ ان کا معاملہ از سرنو ٹرائل کے لئے لاہورہائی کورٹ کو بھجوا دیاتھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس دو آپشن ہیں ایک تو یہ کہ وہ میرٹ پر میاں نواز شریف اور نیب کی اپیلوں کی سماعت کرکے اپنا فیصلہ جاری کرے،دوسری آپشن وہی ہوسکتی ہے جو سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو کیس میں اختیار کی تھی اور کیس ریمانڈ کردیاتھا،زیرنظر کیس میں جج ارشد ملک کا نواز شریف کیس کے حوالے سے مس کنڈکٹ ثابت ہوگیا،العزیزیہ ریفرنس میں نوا زشریف کی سزا کے ساتھ ساتھ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے فیصلوں کا اخلاقی جواز بظاہر ختم ہوگیاہے،اس لئے ہوسکتاہے کہ ان مقدمات کی از سرنو سماعت کے لئے کہا جائے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ العزیزیہ ریفرنس میں نوا زشریف کی سزا کالعدم کرکے کیس ازسرنوسماعت کے لئے احتساب عدالت کو بھجوا دے،اسلام آباد ہائی کورٹ فلیگ شپ کیس بھی ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کرسکتی ہے،غالب امکان یہ ہی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کے خلاف ریفرنس ریمانڈ کرنے کا آپشن استعمال کرے گی۔
تجزیہ:سعید چودھری