بجٹ اور بجلی،اللہ بچائے

 بجٹ اور بجلی،اللہ بچائے
 بجٹ اور بجلی،اللہ بچائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

یکم جولائی سے نئے مالی سال کا آغاز ہو گیا ہے اور وہ بجٹ بھی نافذ ہو گیا ہے جس کے عوام دوست ہونے کے حکومت کی جانب سے بہت دعوے کیے گئے تھے مگر اس کی عوام دوستی نے ابھی سے عوام کی چیخیں نکلوانا شروع کر دی ہیں اسی طرح جون کے بجلی کے بل دیکھ کر بھی لوگ سکتے میں ہیں۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا اس بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے لیے اس میں کوئی بھی اچھی خبر نہیں ہے؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ تین چیزوں سے عبارت ہے، نئے ٹیکس، ٹیکسوں میں چھوٹ کا خاتمہ اور پہلے سے نافذ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، اس کے باوجود حکمران پتا نہیں کیسے مطمئن نظر آتے ہیں۔ بجٹ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے ممکن ہے یہ محسوس ہو کہ ٹیکسوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1.6 ٹریلین روپے ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ عوام کو شدید طور پر متاثر کرنے والا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ عام آدمی یعنی متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں بڑھایا جائے گا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کر کے امیر طبقے کو ٹیکس دینے والوں میں شامل کیا جائے گا لیکن ہمیشہ کی طرح ہوا اس کے بالکل برعکس ہے، عام آدمی کی جیب سے ہی زیادہ سے زیادہ پیسے نکلوا کر ریونیو کے اہداف پورے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پہلے سے مہنگائی کے شکار عوام آخر کتنا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔

 ہو یہ رہا ہے کہ جب ٹیکس نیٹ وسیع نہیں کیا جا سکتا اور ریونیو کے اہداف پورے نہیں ہو پاتے تو حکومت بار بار انہی چیزوں کے نرخ بڑھانے پر توجہ دیتی ہے جن پر اس کا کنٹرول ہے اور جو عوام کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں،آج بجلی ہی کی بات کر لیتے ہیں، بجلی کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ چند ماہ یا چند سال پہلے جن گھروں کا بجلی کا بل چند سو روپے آتا تھا وہ اب کئی ہزار روپے آنے لگا ہے اور جن کا ہزاروں میں آتا وہ لاکھوں کا بل دیکھ کر صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا وہ سارا مہینہ کمائی کرنے کے بعد صرف بجلی کا بل ادا کریں اور اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیں اپنی دوسری ضروریات کا گلا گھونٹ دیں؟ 

مسئلہ صرف استعمال کی گئی بجلی کے بل کا ہوتا تو شاید حل ہو جاتا لیکن مسئلہ اس سے زیادہ گمبھیر ہے کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ بجلی کی اصل قیمت اگر 100 روپے ہے تو اس کے ساتھ 50 روپے کے ٹیکس ہیں یعنی اگر کسی گھر کا بجلی کا بل پچپن ہزار روپے آیا ہے تو اس میں 12 ہزار روپے سے زیادہ رقم ٹیکسوں کی ہو گی، اب بندہ پوچھے کہ ایک عام یوٹیلٹی پر ٹیکسوں کی بھرمار کا کیا مطلب ہے سوائے اس کے کہ عوام کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکلوائے جائیں یعنی صارفین کو بجلی استعمال کرنے کی سزادی جا رہی ہے۔ دوسری طرف انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز ہیں جن کے ساتھ حکومت کا معاہدہ یہ ہے کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کی کپیسٹی کے مطابق انہیں پیسے ملنے ہی ملنے ہیں، پتا نہیں اب تک کسی حکومت نے ایسے مالی لحاظ سے جان لیوا معاہدوں کو ختم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ تیسری جانب وہ محکمے اور ادارے ہیں جن کے ذمے بجلی کے لاکھوں روپے کے واجب الادا بل ہے لیکن نہ وہ خود ادا کرتے ہیں اور نہ ہی بجلی کی تقسیم کار کسی کمپنی میں اتنی جرات ہے کہ ان سے نکلوا سکے، چوتھی جانب بجلی کی چوری ہے جس میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ بجلی کی تقسیم کی ذمہ دار کمپنیوں کے اہل کار بھی ملوث ہوتے ہیں اور بجلی کے لائن لاسز ہیں۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کی رقوم بھی ان صارفین کی جیبوں سے نکلوائی جاتی ہیں جو پوری ایمان داری سے بجلی استعمال کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ ایمان داری سے بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں، یہ ساری چیزیں ملا کے بجلی کا بل اتنا بن جاتا ہے کہ یا تو بجلی کا بل دیا جا سکتا ہے یا زندہ رہنے کے لیے روٹی کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔،حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ بجلی کے ان بلوں پر بے جا ٹیکسوں کا آج تک نہ تو کسی ادارے نے نوٹس لیا ہے اور نہ ہی ملک میں عوام کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی این جی او نے اس حوالے سے کوئی آواز اٹھائی ہے۔

صورت حال کی گمبھیرتا کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سینئر اداکار راشد محمود 45 ہزار روپے کا بجلی کا بل دیکھ کر پھٹ پڑے اور بل کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ارباب اختیار کو کھری کھری سنا کر آب دیدہ ہو گئے۔ ایک ویڈیو میں راشد محمود نے بتایا، میرے 701 یونٹ کا بل 45368 روپے آیا ہے، میں 4 مرتبہ ہارٹ اٹیک کے باوجود اللہ کے کرم سے زندہ ہوں لیکن آج سوچتا ہوں میرے اللہ مجھے کیوں بچایا، میں نے اپنی ساری زندگی اس ملک کی نہایت ایمان داری کے ساتھ خدمت کی، ہمارے کاموں کے باعث یہاں اربوں روپے اکٹھے ہوئے لیکن پچھلے کئی سالوں سے لاہور میں ہمارے لیے کوئی کام نہیں، اب میں 45 ہزار روپے بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے پیسے کہاں سے لاؤں؟ اس کے بعد ایک اور ویڈیو نظر سے گزری جس میں کوئی صاحب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی توجہ راشد محمود کی اووربلنگ کی طرف دلاتے ہیں تو صوبائی وزیر یہ کہہ کر وہاں سے چلی جاتی ہیں کہ بھائی سب کے بل زیادہ آئے ہیں۔ جہاں تک اووربلنگ کا تعلق ہے تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اووربلنگ کرتی رہی ہیں۔ 27 اپریل 2024ء کی ایک خبر یہ ہے کہ ملک بھر میں صرف ایک ماہ کے دوران بجلی کے92کروڑ 69لاکھ یونٹس کی اووربلنگ کرکے عوام سے 34 ارب 29 کروڑ روپے زائد وصول کیے جانے کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔،سوال یہ ہے کہ اس اوور بلنگ کا کوئی سدِ باب کسی نے سوچا؟ اور کیا اب اووربلنگ نہیں ہو رہی ہو گی؟

ہمارے ملک میں مہنگائی کے سمندر کے سوتے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخوں سے ہی پھوٹتے ہیں، ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی ان تینوں چیزوں کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ ہر روز یہ خبر ملتی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ اتنا اضافہ ہو گیا گیس کے نرخ فی یونٹ میں اتنا اضافہ ہو گیا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو ہر 15 دن کے بعد تبدیل ہوتی ہیں، مطلب یہ کہ صارفین سے یوٹیلٹیز پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کی روش اختیار کر لی گئی ہے اور اس کے عام شہری کی جیب اور بڑے تناظر میں ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس بارے میں ہمارے حکمران شاید سوچنا گوارا نہیں کرتے،مگر کب تک وہ ایسا کرتے رہیں گے؟

مزید :

رائے -کالم -