معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تیسویں قسط
شہنشاہ کے حضور
مسفلہ اسٹریٹ ختم ہوئی تو حرم کا بڑا سافرش آگیا۔ اسے عبور کرکے ہم مسجد کے اس حصے میں داخل ہوئے جسے شاہ فہد کے دور میں تعمیرکیا گیا ہے۔ ایسا لگا کہ ہم آگ کی بھٹی سے نکل کر ٹھنڈ کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے ہوں۔ یہ مسجد کا واحد حصہ ہے جو مکمل طور پر اےئر کنڈیشنڈ ہے۔ یہاں آکر ایک طرف جسم کو گرمی سے نجات مل گئی اور دوسری طرف خدا کے گھر میں داخلے کے احساس نے وجود کی گہرائیوں میں اطمینا ن و سکون کی لہر دوڑادی۔ہم لوگوں نے نماز یہیں ادا کی۔یہاں سے میرے سسرال والے الگ ہوگئے اور میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مطاف کی طرف بڑھ گیا۔ نئی تعمیر سے گزر کرہم مطاف سے قبل واقع ترکی دورکے تعمیرشدہ حصے میں داخل ہوئے۔ میرا سر جھکا ہوا تھا۔ اس دنیا میں گنہگاروں کے سر جھکتے ہیں۔ بہت جلد وہ وقت آرہا ہے جب ان کے گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی اور ان کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے جائیں گے۔ خدا کے غضب کا عالم یہ ہوگا کہ ہر شخص نفسی نفسی پکارتا ہوگا۔ خدا جب پوچھے گا: ’’این الجبارون ، این المتکبرون، این الملوک الارض؟ (کہاں ہیں طاقتور، کہاں ہیں بڑے بننے والے،کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ؟)‘‘، تو ہر بادشا ہ، ہرصاحبِ حیثیت اور ہر طاقتور خون کے آنسو روئے گا اور چیخ چیخ کر کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا کاش میں مٹی ہوتا۔ اس روز جب پوچھا جائے گا: ’’ لمن الملک الیوم (آج بادشاہی کس کی ہے؟) ‘‘، ہر شے پکار اٹھے گی: ’’ للہ الواحد القہار (تنہا غالب ہوکر رہنے والے اللہ کی)‘‘۔ اس دنیا میں انسانوں نے صرف خدا کا نام سنا ہے۔ انہیں اندازہ نہیں وہ کس قدر بلند ہستی ہے۔ جس روز اس کے جلال کا ظہور ہوگامجرموں کی خواہش ہوگی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔انتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مگر یہ جگہ جہاں میں موجود تھا ایک ذریعہ ہے جس سے انسان خدا کا پروانۂ امان ، اُس وقت کے آنے سے قبل، طلب کرسکتا ہے۔ ویسے تو وہ ہر جگہ موجود ہے لیکن اس جگہ کو اس نے اپنا گھر قرار دیا ہے۔ عزت والوں کا دستور ہوتا ہے کہ گھر آنے والوں کا اکرام کرتے ہیں۔ ان کی کسی درخواست کو رد نہیں کیا جاتا۔ یہ ا للہ کا گھر ہے جسے اس نے انسانوں کے لیے پہلی عبادت گاہ بھی بنایاہے ۔ اس کی حرمت قائم کی ہے۔ قیامت تک کے لیے اسے اپنے عابدین کا قبلہ، مجاہدین کا مرکز اور محبوبین کا مقصودبنایا ہے۔ کائنات میں خدا کی تجلیات کا سب سے بڑا ظہور یہیں ہوتا ہے۔ اس جگہ آکر سر، آنکھیں، گردن، دل، دماغ سب جھک جانے چاہئیں۔ محبوب آقاکے حضور دیدہ و دل فرشِ راہ ہونے چاہئیں۔ پورے وجود پر عجز و بے کسی طاری ہونی چاہیے۔ یہ اس شہنشاہ کا دربار ہے جو نگاہوں کی خیانتوں اور سینوں میں پوشیدہ رازوں کو بھی جان لیتا ہے۔ یہاں جس نے اپنے عمل کو کافی سمجھا وہ برباد ہوگیا۔ جس نے اپنی خطا کو حقیر سمجھاوہ تباہ ہوگیا۔ جس نے خود کو باحیثیت سمجھا وہ بے مقام ہوگیا۔ یہاں انسان کو صرف ایک مقام زیب دیتا ہے۔ غلام ابن غلام ابن غلام۔
میں حسبِ عادت مطاف کی سیڑھیوں سے قبل رکا اور نگاہیں اٹھاکر بیت اللہ کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ دنیا میں حسن کی بہت سی قسمیں ہیں۔ لیکن حسن وسادگی اور جمال و جلال کا جو امتزاج اس چار دیواری میں ہے، کہیں اور نہیں ۔ سنتے ہیں کہ کعبہ پر ڈالی گئی پہلی نگاہ کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ بات درست نہ بھی ہو تب بھی میں ہمیشہ اس موقع پر کوئی نہ کوئی دعا ضرور مانگتا ہوں۔ اس وقت بھی مانگی۔ پھر آہستہ آہستہ مطاف سے گزرتا ہوا حجر اسود کے سامنے آیا۔کالی پٹی پر کھڑے ہوکر دعااور استلام کے ساتھ طواف کا آغاز کیا۔ ہجوم میں مخالف گھڑی وار (Anti-Clockwise) چلتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ یا جیسے یہاں وقت ہوتا ہی نہیں۔ ازلی مسافروں کی یہ کوئی ابدی منزل ہے جہاں وقت نہیں گزرتا بس پہر بدل جاتے ہیں، لوگ بدل جاتے ہیں لیکن وقت کا دھارا وہیں کھڑارہتا ہے۔ دوران طواف لوگ بہت کچھ کرتے ہیں۔ مگر میں صرف دو کام کرتا ہوں۔ دعایاتسبیح۔ اس جگہ انسان کو یا تو وسیع تر کائنات کا حصہ بن جانا چاہیے جو ہر آن خدا کی تسبیح کرتی ہے یا پھر ایک سخی داتا ان دا تاکے حضور پیش ایک محروم بھکاری۔ میں یہاں ایک عربی دعااکثر کیا کرتا ہوں۔ اس کا اردو مفہوم یہ ہے کہ اے اللہ ہم نے تیری پسندیدہ ترین چیز یعنی تجھے ایک ماننے میں تیری اطاعت کرلی اور تیری ناپسندیدہ ترین چیز یعنی شرک میں تیری نا فرمانی نہیں کی۔ مولا جو ان دونوں کے بیچ میں ہم سے ہوگیا ہے تو اسے معاف کردے۔
طواف سے فارغ ہوکر میں نے اہلیہ کو ان کے گھر والوں کے پاس بھیج دیا کیونکہ انہیں عمرہ نہیں کرنا تھااور خود ملتزم سے آکر لپٹ گیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور راز و نیاز کیا کرتے تھے۔ میں یہاں پہنچا تو یوں لگاکہ جیسے میں خدا سے ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ وہاں بہت لوگ کھڑے تھے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لیے غیر موجود۔سب ایک دوسرے سے لاتعلق۔ وہاں انسان تھا یا خدا۔ تیسرا کوئی نہیں تھا۔میں بھی خلوت میں چلا گیا۔ اس دوران پتا نہیں کیا کچھ ہوا۔ میرے لیے تو کچھ نہ رہا تھا۔ جو رہی تو بے خبری رہی۔ جب وہاں سے ہٹا تو محسوس ہواکہ بہت سارا گند بہت ساری بارش کے ساتھ بہہ گیاہے۔
دو نوافل ادا کرنے کے بعد سعی کے آغازکے لیے میں نے صفا کارخ کیا۔یوں تو پورے حرم پاک کو سیدنا ابراہیم ؑ کے خانوادے سے خصوصی نسبت ہے مگر سعی کا عمل راہِ خدا میں ان کی قربانیوں کی عظیم ترین یادگار ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی جس طرح خدا کی فرمانبرداری اور اسکے دین کی خدمت میں گزاری اس کا بدلہ بھی خدا نے آپ کو ایسا ہی دیا۔ آپ ابوالانبیا اور امام الناس قرار پائے۔تمام حاملینِ کتا ب آپ کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ جو شخص بھی شعور و احساس کے ساتھ سعی کے عمل سے گزرے گا وہ یقیناً خود کو آپ کی آفاقی نسل کا ایک حصہ محسوس کرے گا۔ میں سعی کے دوران دعاؤں میں مشغول رہا۔ خدا کی رحمت بہت بڑی ہے۔ اس سے حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ جو اس نے اپنے نیک بندوں کو ان کی بے انتہا قربانیوں کے صلے میں عطا کیا تھا ، اس کاکوئی حصہ وہ اپنے محبوبوں کی بھونڈی نقل کرنے والوں کو بھی ضرور عطا کرے گا۔
حج و عمرہ : ایک علامتی عمل
عمرے کا آخری عمل قصر یا حلق کرانا ہے۔ یعنی بال کٹوانا یا گنجا ہونا۔ یہ پرانے زمانے کی ایک رسم تھی جس کے تحت لوگوں کو غلام بناتے وقت گنجا کردیا جاتا تھا۔ گویا عمرے کے بعد اس عمل سے گزرنے والا خود کو اپنے رب کی غلامی میں دینے کا اعلان کرتا ہے۔ یہی کیا حج و عمرے کا ہر رکن ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ میں شرک کے تذکرہ میں پچھلے باب میں نقل کرچکا ہوں کہ محسوس پرستی انسانی طبیعت کاخاصہ ہے۔ اسی بنا پر ہر دور میں انسان شرک کا شکار ہوتے رہے ہیں۔انسان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس سے وہ لپٹ کر روئے۔ جسے دیکھ کر اس کا دل عظمت و احترام سے بھر جائے۔ جس کے گرد وہ چکر لگائے۔ جسے وہ چھوسکے، دیکھ سکے، محسوس کرسکے۔ جو اس کے احاطۂ خیال میں آسکے۔جبکہ اسلام جس خدا کی طرف بلاتا ہے وہ نظر ہی نہیں آتا۔ یہ رکنِ اسلام اور بیت اللہ انسان کے اسی جذبے کی تسکین کا سامان ہیں۔ چنانچہ خدا نے ایک جگہ بنائی جسے اپنا گھر قرار دے دیا۔ پھر اس نے مسلمانوں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ اور جو کسی عذر کے بغیر اس گھر میں خدا سے ملنے نہیں آتاخدا نے اس سے آخری حد تک بیزاری کا اعلان کیا ہے(آلِ عمران 3:97)۔ اس کاسبب یہ ہے کہ جو شخص نظر آنے والے خدا میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا اسے ان دیکھے خدا سے کیا تعلق ہوسکتاہے۔ چنانچہ خدا کو بھی اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
احرام باندھنا اس بات کا اظہار ہے کہ بندہ ناگریز انسانی ضرورتوں کو چھوڑ کر ہر مادی چیز سے دامن چھڑا رہا ہے۔اور رب سے ملاقات کے روحانی سفر پر روانہ ہورہا ہے۔تلبیہ پڑھنا اور بار بار پڑھنا اس امر کی یاددہانی ہوتی ہے کہ بندہ اپنے رب کی نعمتوں کے اعتراف میں اس کے ہر غیر سے کٹ کر اس کی طرف آرہا ہے۔ یہ دو اعمال بندے کو اس عظیم عبادت کے لیے ذہناًتیارکرتے ہیں جو حرم میں شروع ہوتی ہے۔ حجر اسودکا استلام خدا کے داہنے ہاتھ پر بوسہ لے کر عہد وفاداری کا ہم معنی ہے۔ پرانے زمانے میں بیعت کا یہی طریقہ رائج تھا۔ طواف اپنے محبوب کو اپنیِ زندگی کا مرکز بنالینے کے ہم معنی ہے۔ شمع و پروانے کی حکایت سے کون واقف نہیں۔ طواف اسی کا دوسرا نام ہے۔ ملتزم پر بندہ خود کو رب کی چوکھٹ پر محسوس کرتا ہے جہاں وہ اپنے مالک کے قدموں میں سر رکھ کر گڑگڑاتا ہے۔ سعی کا عمل سیدناابراہیم ؑ اور ان کی ذریت کے اس عظیم مشن میں شامل ہوکر جدوجہد کرنے کے ہم معنی ہے جس کا آغاز آپ نے اس بے آب وگیاہ صحرا میں کیا تھا۔
حرم میں بد نصیبی کے مظاہر
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کوئی فلسفیانہ حکایت نہیں۔ جس کسی کو کبھی حرم جانے کا موقع ملا ہے وہ ان سب باتوں سے بخوبی واقف ہے۔ذراسا دھیان خدا کی طرف ہو تو آدمی پر یہ ساری کیفیات خود بخود طاری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اگر کوئی کیفیت طاری نہ ہو اور انسان خدا سے لو ہی لگالے تب بھی یہاں سے بامراد لوٹے گا۔تاہم کچھ بد نصیب و ہ ہوتے ہیں جن کی بدبختی پر حرم مہرِ تصدیق ثبت کردیتا ہے۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کا مرض بین الاقوامی ہے یعنی چپلیں چوری کرنا۔ ایک عرصے تک تو میں یہی سمجھتا رہا کہ غلطی سے ایسا ہوتا ہے۔ مگر جب بہت احتیاط سے تھیلی کے اندر رکھی ہوئی چپلیں بھی غائب ہوئیں تو احسا س ہوا کہ کچھ غلطی سے ہوتا ہے اور کچھ جان بوجھ کر۔ خیر اس صورت حال کا حل یہ نکالا کہ جب کبھی چپلیں غائب ہوتی، میں اسے اپنی حاضری کے قبول ہونے کی علامت سمجھتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ حاضری قبول ہو نہ ہو اس تصور سے چپلیں کھونے کا غم نہیں ہوتاتھا۔ دوسری چیز جس کی شاید بہت سے لوگوں کو توقع بھی نہ ہووہ خواتین کو تنگ کرنا ہے۔ یہ مکروہ حرکت بالعموم رش کے وقت طواف میں کی جاتی ہے ۔ اکثر خواتین یہ سمجھ کر خاموش رہتی ہیں کہ نادانستگی میں ایسا ہوا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اکثرمرد پوری توجہ سے طواف کررہے ہوتے ہیں۔ خشوع و خضوع نہ سہی لیکن خدا کے سامنے کھڑے ہوکر ایسی ناپاک حرکت کرنے کی ہمت عام آدمی میں نہیں ہوتی۔ یہ پتھر دل عادی مجرموں کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خواتین رش میں گھسنے کی کوشش نہ کریں۔ مردوں سے دور رہ کر طواف کریں۔ حتی الامکان اپنے محرموں کے ساتھ طواف کریں کیونکہ اکیلی خاتون کو دیکھ کر بعض بدبخت پیچھے لگ جاتے ہیں۔ میری نصیحت یہ ہے کہ کبھی ایسا ہو اور کہیں بھی ہو تو بلا جھجک چیخ ماردینی چاہیے۔ بالکل نہیں ڈرنا چاہیے۔
تیسری چیز جیب کاٹنے کے واقعات ہیں۔دورانِ طواف انتہائی ماہر جیب تراش گروہ کی صورت میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں موقع ملا کسی کا بھی پرس اڑا لیتے ہیں۔ جو پرس اڑاتا ہے وہ فوراََ کسی اور کو آگے پارسل کردیتا ہے اور وہ تیسرے کو۔ وہ یہ اس لیے کرتے ہیں کہ قریبی آدمی کو کوئی پکڑے تو اس کے پاس سے کچھ برآمد نہ ہو۔ ایسا ہی میرے بھائی رضوان کے ساتھ ہوا تھا مگر چونکہ وہ تین چار افراد کے ساتھ تھے اس لیے چور کو پکڑ لیا۔ اس سلسلے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس طرح صرف پیسے ہی نہیں کھوتے بلکہ پاسپورٹ اور دیگر قیمتی کاغذات بھی غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ بات مکمل نہیں ہوگی جب تک میں آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نہ سناؤں۔
جاری ہے۔ اکتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)