درمیان کا راستہ
عہدِ شباب کے مسحور کن دنوں کی بات ہے۔ ایک روز ایک ہم عمر دوست سے سنجیدہ سی گفتگو کرتے ہوئے میں نے دعوی کیا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس دوست سے کسی گہرے جواب کی توقع نہیں تھی۔ تاہم اس نے میری بات سے اختلاف کرتے ہوئے وثوق سے پتے کی بات کی کہ ان ہی دو حالتوں میں اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے۔ وگرنہ بہت خرابی ہو سکتی ہے۔ میں نے اسکی باتوں کو بزدلی جانا۔ میں اس سوچ کا حامل تھا کہ جنگ اور محبت میں جس حد تک جانا پڑے ہدف حاصل ہونا چاہیے۔
میں آج بھی اپنی بات پہ قائم ہوں۔ تاہم یہ جان لیا ہے کہ ہر معرکہ جنگ نہیں ہوتا اور ہر چاہت محبت نہیں ہوتی۔ خاص طور پر سیاست، مفادات اور حصولِ اقتدار نہ تو جنگ ہیں نہ ہی محبت۔ ان کے لئیے حدود پار کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ قانون اور تہزیب کی قیود میں رہ کر کوشش کرنی چاہیے۔
اعتدال اور استدلال کار زارِ حیات اور خار زارِ سیاست کی پر پیچ, پیچیدہ اور دشوار راہ پر دامن کو الجھنے اور آلودہ ہونے سے بچا کر منزلِ مقصود پر بخیر و خوبی پہنچا دیتے ہیں۔ ہم اسکے برعکس چلنے اور کرنے پہ مْصر اور کاربند ہیں۔ مثال کے طور پر آج اس مملکتِ اسلامی میں مذہب کو ہی سیاست میں گھسیٹ کر مخالفین کو معتوب کیا جاتا ہے، مداحین کو مغلوب کیا جاتا ہے اور مصاحبین کو مرعوب کیا جاتا ہے۔ مذہب کو ایسا مسخ کیا ہے کہ اسکی اصل شکل اور روح قابلِ شناخت ہی نہیں رہے۔ ہم قطعاً بھول چکے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام نے ہی در گزر اور میانہ روی کا سبق ایسے دیا کہ چچا حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کر دیا۔ جو دشمن جان کے درپے تھے انکو بھی معافی دے دی۔ جنہوں نے شعب ابی طالب کی جاں گسل سختیوں سے دوچار کیا انکو لاچار دیکھ کر سب بھلا دیا۔ انکے پیشِ نظر پیغامِِ رب ذوالجلال کا اعلیٰ مقصد تھا اور اسلامی ریاست کو مظبوط کرنے کا ہدف تھا۔ لہٰذا درمیان کا راستہ اختیار کیا۔
تاریخ میں میانہ روی, برداشت اور رواداری کی کئی روشن اور قابلِ تقلید مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے ان رویوں کے باعث امن امان اور خوشحالی کی بے مثال حکایات و روایات رقم کیں۔ 313 عیسوی میں مغرب میں رومی شہنشاہ کانسٹینٹائن دی گریٹ اور مشرق میں لیسینیئس کے میلان کے حکم نے پوری رومن سلطنت میں مذہبی رواداری کی پالیسی قائم کی اور مذہب کی آزادی کے لیے ایک مثال قائم کی۔ میلان کے حکم مذہبی عدم برداشت کو بالائے طاق رکھ کر ثابت کیا کہ رواداری معاشرتی پائیداری کا باعث بن سکتی ہے۔
اس سے بہت پہلے 304-232 قبل مسیح، کلنگا جنگ کے بعد ہونے والی اجتماعی اموات کو دیکھنے کے بعد، ہندوستان میں موریہ خاندان کے شہنشاہ اشوک نے بدھ مت کو اپنایا اور عدم تشدد، محبت اور رواداری کے اصولوں کی تبلیغ کی۔ سیاست اور حکمرانی میں امن اور رواداری نے اشوکا کو ایک بے رحم فاتح سے ایک خیر خواہ رہنما بنا کر ہمیشہ کے لئیے امر کر دیا۔
ریاستہائے متحدہ میں 1850 کا سمجھوتہ جس میں مفرور غلام ایکٹ اور کیلیفورنیا کو آزاد ریاست کے طور پر داخل کرنے جیسے اقدامات شامل تھے، سیاسی اعتدال اور سمجھوتہ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس مفاہمت نے خانہ جنگی کے آغاز میں ایک دہائی تک تاخیر کی اور امن امان قائم رکھا۔
سب سے مناسب اور حسبِ حال مثال نیلسن منڈیلا کی ہے۔ وہ 27 سالقید و بند کی صعوبتیں گزارنے کے بعد انتقام کے ساتھ نہیں بلکہ مفاہمت کے پیغام کے ساتھ ابھرے۔ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کے طور پر انہوں نے مخالفین کو صدقِ دل سے معاف کیا اور نسل پرستی کی میراث کو ختم کرنے کے لیے کام کیا۔ منڈیلا کی قیادت اس بات کی مثال دیتی ہے کہ کس طرح رواداری اور معافی سیاسی تبدیلی اور منقسم قوم کو شفا دینے کے لیے طاقتور ہتھیار ہو سکتی ہے۔
گڈ فرائیڈے معاہدہ(1998) نے شمالی آئرلینڈ میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کی۔ گڈ فرائیڈے معاہدے کی کامیابی متنوع سیاسی نقطہ نظر کو برداشت کرنے اور تاریخی طور پر مخالف برادریوں کے درمیان رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔
تاریخ کے یہ قصے اعتدال اور رواداری کی طلسماتی قوت کو اجاگر کرتے ہیں جو سیاسی تنازعات کو حل کرنے، امن کو فروغ دینے اور جامع معاشروں کی تعمیر کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ ہمیں باور کراتے ہیں کہ اگرچہ رواداری اور اعتدال کا راستہ اکثر مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کے نتائج سیاسی نظاموں اور معاشروں کے لیے بڑے پیمانے پر تبدیلی کا باعث بن سکتے۔ آج ہم منقسم قوم ہیں چونکہ ہم منتقم لوگ ہیں۔ تاریخ سے ہمیں سیکھنا ہو گا کہ رواداری اور معافی ہی ہمیں انتشار، انتقام اور انہدام کے گہرے دلدل سے نکالنے میں ممدو و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ رہنماؤں کو ذاتی عناد اور انا سے نکل کر ملک، قوم، معاشرے اور عوام کے لئیے رواداری اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔