بھٹو نے ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی تک سفر کیا، ہر سٹیشن پر ہزاروں افراد جمع ہو جاتے اور اعلان تاشقند کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے

بھٹو نے ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی تک سفر کیا، ہر سٹیشن پر ہزاروں افراد ...
بھٹو نے ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی تک سفر کیا، ہر سٹیشن پر ہزاروں افراد جمع ہو جاتے اور اعلان تاشقند کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:74
غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی طرف سے یہ خبریں بھی شائع ہوتی رہیں کہ ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے مذاکرات کے دوران روسی وزیراعظم کوسی گن بار بار غصہ میں آئے تھے اور انہوں نے پاکستانی صدر پر دباؤ ڈال کر یہ معاہدہ کرایا تھا۔ پاکستان واپس آ کر وزیر خارجہ بھٹو نے اس سلسلہ میں کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی بلکہ وہ نیم دلی کے ساتھ حکومت کے اعلانات کی تائید کرتے رہے۔ اور اس کے بعد اُن کے بارے میں خبریں شائع ہوئیں کہ وہ اپنی بحالی ئ صحت کے لئے دو ماہ کی چھٹی پر سوئٹزر لینڈ جا رہے ہیں۔ بھٹو نے اس موقع پر ریلوے ٹرین کے ذریعہ راولپنڈی سے کراچی تک سفر کیا۔ ہر ریلوے سٹیشن پر جہاں گاڑی رُکتی اُن کے سیلون کے سامنے ہزاروں افراد جمع ہو جاتے اور ان سے اعلان تاشقند کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے۔ جواب میں بھٹو صاحب آبدیدہ ہو جاتے اور سامعین سے کہتے کہ وہ جلد ہی اعلان تاشقند کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کریں گے۔ اس طرح ”اعلان تاشقند“ کی اندرونی کہانی کیا ہے؟ عوام کا ایک تجسس آمیز سنجیدہ سوال بن گئی۔ اس کے بعد بھٹو صاحب سوئٹزر لینڈ چلے گئے۔ وہاں سے فرانس اور دیگر ممالک بھی گئے۔ اس دوران بھٹو صاحب کو اپنی سیاسی جماعت بنانے کا خیال بھی آیا ہو گا کیونکہ ملک کے اندر اور ملک سے باہر پاکستانیوں میں وہ بہت مقبول سیاسی لیڈر بن گئے تھے۔ وہ چھٹیاں گزار کر ملک میں واپس آئے اور اکتوبر 1967ء میں انہوں نے لاہور میں قیام کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنانے اور اعلان تاشقند کی اصل حقیقت بیان کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مناسب وقت پر ”اعلان تاشقند“ کی اصل حقیقت کا اعلان کریں گے۔ 1970ء کے عام انتخابات سے پہلے بھٹو کی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی ایک مقبول ترین جماعت بن چکی تھی۔
اب ایک نظر مشرقی پاکستان کے حالات پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے ایک بزرگ سیاست دان مولوی اے کے فضل الحق جو کہ تقسیم سے قبل متحدہ بنگال کے وزیراعظم بھی تھے اور قیام پاکستان کے بعد وزیراعلیٰ بھی رہے وہ ایک زبردست بنگالی نیشنلسٹ اور عوامی سیاست دان تھے۔ جب وہ متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے تو اُن کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے تمام منافع بخش اور داد و عیش والے محکمے اپنے وزیروں میں تقسیم کر دیئے اور اپنے لئے انہوں نے ”پرائمری تعلیم“ کا محکمہ رکھا۔ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے ایک ایک گاؤں جاتے اور بوری بچھا کر زمین پر بیٹھ جاتے کہ یہاں کتنے پرائمری سکول ہیں؟ لڑکوں کے کتنے اور لڑکیوں کے لئے کتنے……؟ ہر گاؤں میں وہ کم از کم دو سکول بنا کر وہاں سے اُٹھتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند برسوں کے بعد آج تک بنگلہ دیش اور بھارتی بنگال میں خواندگی کی شرح سو فیصد کے آس پاس ہوتی ہے۔ مولوی اے کے فضل الحق کے پہلے سیاسی شاگرد سید حسین شہید سہروردی تھے اور سہروردی کے شاگرد شیخ مجیب الرحمن۔ سہروردی مرحوم کی سیاسی پارٹی کا نام عوامی مسلم لیگ تھا۔ جو بعد میں صرف عوامی لیگ رہ گئی اور اسی نام سے معروف ہوئی۔ سید حسین سہروردی کے انتقال کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خان اس جماعت کے سربراہ ہوئے۔ 1966ء میں حکومت نے مشرقی پاکستان کے ایک سرحدی گاؤں اگرتلہ سے شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ بعض بھارتی حکام کے ساتھ قابل اعتراض مذاکرات یا سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -