پاکستان میں سیاحت کا فروغ
اللہ کا عظیم احسان ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں قدرت کے بنائے گئے سارے موسموں کے رنگ موجود ہیں ۔
ارضِ وطن میں جنت نظیر مقامات ہیں ، ایسے ایسے مناظر جودیکھنے والے کی آنکھوں کو خیرہ کر دیں۔ دلکش اور دلفریب قدرتی مناظر ، جھیلیں، آبشاریں ، جھرنے ، آسمان کی وسعتوں کو چھوتے پہاڑ اور ان پر سر بلند درخت و سبزہ ، رنگ برنگے پھولوں سے لدے پودے ، وسیع و عریض صحرا، زرخیز میدانی علاقہ ، سمندر ، گلیشیر ۔ عرض، کیا نہیں ہے اس پاک سرزمین پر ۔
ہر وہ چیز جسے انسانی آنکھ دیکھنے کی تمنا کرے ۔ جن ممالک کے پاس ان میں سے چند چیزیں بھی ہیں ان کی معیشت کا دارومدار ہی سیاحت پر ہے ۔ دوبئی کی ہی مثال لیجئے۔ وہاں صرف سمندر اور صحرا ہے ، اور پاکستان کے پاس ان دونوں کے علاوہ بھی وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو دنیا کی دلکشی کا سبب ہیں ۔
لیکن افسوس بیرونی سیاحت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی نہ بن سکی۔ اسکی بنیادی وجہ دہشت اور خوف کی وہ فضا ہے جو وطنِ عزیز کی فضاؤں میں گھول کر تحلیل کر دی گئی ہے ۔ دشمن سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کو پرامن رہنے دیا تو یہ دنیا کی بڑی ایٹمی طاقت سپر پاور بھی بن جائے گی اور یہ انھیں کسی صورت قبول نہیں ۔لہذا وہ پاکستان کی فضا میں خوف کے زہر کا دھواں بکھیرتے رہتے ہیں تا کہ غیر ملکی سیاح ڈر اور خوف کے مارے ادھر کا رخ نہ کریں اور پاکستان کے زرِ مبادلہ میں اضافے کا سبب نہ بنیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں کی سازش کا حصہ کچھ ’’اپنے ‘‘ بھی بن گئے ہیں اور پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل میں مگن ہیں۔ محض ذاتی مفاد اوردولت کی خاطر ۔ خیر جہاں وطن میں ان ضمیرفروشوں کی کمی نہیں وہاں وطن کے جان نثار وں کی فہرست اس سے بھی طویل ہے۔ یہ جان نثار وطن کی فضاؤں کو معطر بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں ، یہ چاہتے ہیں امن کے فانوس چاند سورج سے بھی تاباں ودرخشاں ہوں۔ ان کی روشنی دنیا بھر میں چار سو پھیل جائے اور اس روشنی میں دنیا بھر کے سیاح پاکستان کے خوبصورت اور دلکش مناظر کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کر کے اللہ کی اُس بہشتِ بریں کی ایک جھلک یہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ، ان وطن کے جان نثار بیٹوں میں سے ایک بیٹا خواجہ شجاع اللہ بھی ہے ۔
خواجہ شجاع اللہ بنیادی طور پربزنس آئیکونک ہیں ، گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا پاکستان کا یہ سپوت وطنِ عزیز کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا بھر پور کردار اد ا کررہا ہے ۔ بزنس کے ساتھ سماجی خدمت خواجہ شجاع اللہ کی زندگی کا محور ہے ، جیل ، دارلامان ، ہسپتال اور دیگرفلاحی مراکز میں جائیں تو کوئی تعمیر شدہ بلاک ، عمارت میں لگے پنکھے ، اے سی ، بیڈز یا کوئی دیگرچیز اس بات کا ثبوت فراہم کر دے گی کہ یہاں سے خواجہ شجاع اللہ کاگزر ہو اہے ۔ سماجی خدمت کے علاوہ خواجہ شجاع اللہ کو سیاحت کا جنون کی حد تک شوق ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی سیر کرنے والا یہ سیاح اپنے وطن کی خوبصورتی اور دلکشی کا اسیر ہے ۔ وہ اس کے حسن کے طلسم سے نکل ہی نہیں پا رہا ۔ دنیا بھر کے حسین مقامات کے مناظر اس کے اس نظریئے کو تبدیل کرنے سے قاصر ہیں کہ ارضِ وطن کے علاوہ کسی اور خطے میں بھی’’ بہشتِ بریں ‘‘واقع ہے ۔
خواجہ شجاع اللہ چاہتے ہیں جن مناظر کو دیکھ کر وہ اس جنت نظیر خطے کے اسیر ہوئے ہیں ،دنیا بھر کے لوگ بھی وہ نظارہ کر کے اُن کے اس دعوے کے قائل ہو سکیں ،لہٰذا پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے انہو ں نے ’’دی پاکستان ٹورازم ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے جس کے ایجنڈے پر صرف ایک ہی چیز ہے وطنِ عزیز میں سیاحت کا فروغ ۔ 27 ستمبر سیاحت کا عالمی دن ہے ، سیاحت کے اس عالمی دن کے موقع پر خواجہ شجاع اللہ نے اپنے ہوٹل کے وسیع ہال میں ’’ پاکستان میں سیاحت کا فروغ ‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا اور اس میں گوجرانوالہ کے نمائندہ افراد کو دعوت دی ۔ میرا خیال تھا کہ اس موضوع پر لوگ توجہ نہیں دیں گے ، لیکن میں حیران رہ گیا گوجرانوالہ کے تمام نمائندہ افراد ہال میں موجود تھے ۔ خواتین کی تعداد دیکھ کر اور زیادہ حیرت اور خوشی ہوئی ۔ صحافیوں کا اس قدر تعداد میں کوریج کے لیے آنا بھی میرے لیے حیرت کا باعث تھا۔
اس سیمینار میں جن مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں جناب محمد رفیق بٹ ایم پی اے و چیئرمین پارکس اینڈہارٹی کلچر ، ایس ایس پی آصف ظفر چیمہ سی ٹی او گوجرانوالہ ، چودھری محمد اصغر سپرنٹنڈنٹ جیل ، ڈاکٹر حلیم خاں ریزیڈنٹ ڈائریکٹر گوجرانوالہ آرٹس کونسل ، سید واجدعلی نقوی ڈپٹی ڈائریکڑ گیپکو ، کریم بخش سومرو مینجر گیپکو، چودھری اشرف مجید چیئر مین تنظیم بقائے ثقافت پاکستان ، سجاد مسعود چشتی چیئر مین آل پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن ، محترمہ نفیسہ ایڈووکیٹ صدر وویمن ونگ عام لوگ پارٹی ، مس مصباح گُل لیڈی جرنلسٹ ، افتخار علی بٹ صدر پرنٹ میڈیا ایسوسی ایشن ، افتخار علی گل سیکرٹری جنرل گوجرانوالہ یونین آف جرنلسٹ ،فیاض اروپی، اقصٰی لیاقت اور حافظ عبدالقادر وغیرہ شامل تھے ۔
مقررین نے اپنے اپنے انداز میں وطنِ عزیز کے خوبصورت مقامات کی دلکشی کا ذکر کیا ، سبھی نے اس جنت نظیر ارض کے بہت سارے مقامات کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کر رکھا تھا لہذا جب انہوں نے ان مقامات کی منظر کشی کی تو ہال میں موجود افراد بھی اس سیر میں شامل ہو گئے جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی ۔ مقررین نے اتنی خوبصورتی سے ان فطری اور قدرتی مناظر کا ذکر کیا کہ میری بے تابی اس حد تک جا پہنچی کہ خود ان مقامات کی طرف سفر کرنے کو روح مچلنے لگی۔
میں بیٹھا سوچ رہا تھا کاش میرے وطن کے باسیوں کو اس بات کا یقین ہو جا ئے کہ وہ اس خطے میں بس رہے ہیں جو دنیا میں خدا کا سب سے بڑا نعام ’’بہشت‘‘ ہے ۔
کاش وہ اس کی حفاظت اور سر بلند ی کے لیے تمام فروعی اختلافات کو چھوڑ کر ایک ہو جا ئیں ۔ اس کی حفاظت اور عظمت کے لیے وہ دشمنوں کے گھٹیا عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور وطنِ عزیز کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے اس منصوبے کو ناکام بنا دیں جو ہمارے دشمنوں کا ایجنڈا ہے تاکہ پاکستان کو بدامنی اور دہشت گردی کا مرکز سمجھ کر جو بیرونی سیاح یہاں نہیں آتے ، وہ یہاں کی فضا کو سازگار پاکر ان دلکش مناظر کا نظارہ کر سکیں جو خالقِ حقیقی کی اعلٰی ترین تخلیق کا مظہر ہیں ۔