میاں بیوی میں اختلافات اوران کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں(2)
اِسی موضوع پر سورة الروم نمبر 30 کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ربانی ہے: ” اور اس کی قدرت کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے پیدا فرمائیں تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں تاکہ تم سکون حاصل کرو اُن سے، اور پیدا فرما دئیے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات ۔بے شک اس میں بہت نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔یعنی عورت اللہ رب العزت کی اَن گنت نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ،جس کو اس نے کسی مٹی سے نہیں، خود مرد کے جسم سے بنایا تاکہ یہ اُس کی خدمت گزار بن کر نہیں، بلکہ اُس کی رفیق حیات بن کر ساتھ ساتھ زندگی کے دن گزارے۔ عورت اس لئے پیدا کی گئی ہے تاکہ مرد کو اس سے سکون و راحت ملے۔ زندگی کا یہی وہ لائق احساس سرمایہ ہے جو مرد کو عورت کی آغوش میں مل سکتا ہے۔ بیوی کی آغوش وہ شبستان ہے جہاں معاش کی فکر میں سرگرداں، جان توڑ محنت پر دن بھر کی جاں گسل محنت کے بعد شوہر سکھ، چین کی گھڑیاں گزارتا ہے اور پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔ شوہر کی تمام تر خواہش یہ ہوتی ہے کہ زندگی کی یہ ہم سفر جب بھی اسے ملے اس کا چہرہ تروتازہ گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ اور ہشاش بشاش ہو۔ اس کے کان گوش بر آواز ہوں۔ دل محبت سے سرشار ہو۔ بات کرے تو نرمی اور شیرینی سے۔ گویا اس طرح ہم کلام ہو جس سے تمام غم غلط ہوں اور ساری تھکن جاتی رہے۔ معلوم ہوا کہ بیوی راحت و سکون کا گہوارہ ہے جہاں اس کے شوہر کو سکون نصیب ہو تا ہے، اس کی ہمدردی اور پاکیزہ محبت کی چھاو¿ں میں شوہر کو قلبی تسکین ملتی ہے۔ وہ حرام کاری سے بچتا ہے۔ ظاہر ہے مرد اور عورت کی آفرینش اور ان میں محبت و رحمت کے یہ تعلقات (اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی یہ صرف ایک دلیل نہیں، بلکہ اس میں بے شمار دلیلیں دی گئی ہیں، جتنا کوئی سوچے گا اتنی ہی اسے معرفت نصیب ہوتی جائے گی۔
-2 میاں، بیوی کے تعلقات آپس میں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں، بلکہ بیوی کی ذمہ داریاں میاں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ اگر بیوی میں کچھ خامیاں ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ بیوی میں بہت سے خوبیاں بھی ہیں جو شوہر کو بہت بھاتی ہیں اور جن سے شوہر کو قلبی سکون اور اطمینان میسر ہوتا ہے۔ اس لئے بیوی کے ایک پہلو کی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ تجربات سے ثابت ہے کہ عورتیں عموماً جفاکش، قناعت پسند، شوہر پر جان چھڑکنے والی، بچوں کی پرورش پر نثار، گھریلو معاملات کی بہترین منتظم اور و فادار، اخلاص کی پیکر ہوتی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کمزوری سے زیادہ پہلو خیر اور بھلائی بیوی میں پائے جاتے ہیں۔ بیوی کی محنت اور جفاکشی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب گردشِ ایام کی وجہ سے مصائب و آلام کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس کا شوہر کسی وجہ سے مصیبت اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ذرا حمل اور وضع حمل کی شدید تکلیف پر نظر کرو اور دیکھو کہ بیوی پر درد زہ کی وجہ سے کتنا بھاری وقت ہوتا ہے، مگر وہ اس کے تمام دُکھ اور درد کو بڑے حوصلے سے برداشت کرتی ہے۔ تب کہیں جا کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر 30 ماہ اسے اپنا دودھ پلاتی ہے اور بچے کی بے پناہ محبت اور خلوص سے پرورش کرتی ہے۔ بلاشبہ بیوی صنفِ نازک ہے۔ ان کے دل چھوٹے اور نازک ہوتے ہیں۔ عِشوہ اور ادا ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ذرا سی خلافِ طبیعت بات پر رنجیدہ ہو جاتی ہے، اس لئے خاوند کو اپنی بیوی کی مجموعی کیفیت کا خاص خیال رکھناچاہئے۔ بیوی اپنے پیا کی خاطر اپنا وہ گھر جہاں، ناز و نعمت پیار و محبت سے پروان چڑھی ہے اسے خیر باد کہہ کر سسرالی گھر میں آبستی ہے جہاں اسے نہ صرف اپنے خاوند کی تابع داری کرنی ہوتی ہے، بلکہ سسرال کے ہاں بہو کو اپنے شوہر کے علاوہ اس کے والدین اور بہن، بھائیوں کا احترام بھی کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر سسرال والے اپنی بہو کو بیٹی بنالیں تو گھر کا ماحول ہمیشہ خوش گوار رہے گا۔ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی بھی خوشیوں بھری ہوگی۔
-3 اگر خدانخواستہ میاں، بیوی میں کسی طرح کے اختلافات پیدا ہو جائیں تو شوہر کو مایوس اور جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ علیحدگی کا بھی دل میں خیال نہیں لانا چاہئے، بلکہ صبر اور حوصلہ کے ساتھ دانائی اور ہوشمندی سے اختلافات دور کر لینے چاہیں، جو کام پیار اور محبت سے کیا جائے اسی میں انجام بہتر ہوگا۔ اگر شوہر یا اس کے والدین وغیرہ کی طرف سے زیادتی ہو تو معذرت کر لینی چاہئے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح جان لے کہ انسان احسان کا اسیر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ سورہ نور نمبر 24 آیت نمبر 51 کا ترجمہ دکھیں: ”بلاشبہ ایمان والوں کی بات تو یہ ہے جب وہ اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان میں فیصلہ کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حکم سنا اور مانا اور
یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اسی مناسبت سے میاں بیوی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جا رہی ہے کہ اپنے اختلافات اور جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے ارشاد ربانی کو قبول کرنا ہی وہ تیر بہدف علاج اور منفرد تدبیر ہے، جس کے سہارے ازدواجی زندگی استوار اور برقرار رہ سکتی ہے۔ نیز اس کے اندر خود ان کا اور ان کی اولاد اور دیگر سب متعلقین کا مفاد مضمر ہے۔ مزید برآں کسی خلفشار اور انتشار کے بغیر یہ طریقہءدرگزر تمام مشکلات کا مداوا بنتا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت مجرم اپنے گناہ اور قصور کا اعتراف کرتا ہے۔ اللہ اور رسول اللہ کے فرمان کے مطابق اپنی اصلاح کر لیتا ہے۔ نفسانی خواہشات، ذاتی مفاد کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ سورة النساءنمبر 4 آیت نمبر 59 کا ترجمہ ملاحظہ ہو، پھر اگر کسی معاملہ میں ( میاں ، بیوی میں) باہم اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔ سرکشی اور نافرمانی کے موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میاں، بیوی کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے اور انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈریں۔ اپنی انانیت اور ضد کو چھوڑ کر صلح و صفائی کی طرف آمادہ ہوں۔ اپنی اغراض اور ضرورتوں کو اپنی اولاد پر قربان کر دیں۔ اس لئے کہ اولاد بچاری کا کیا قصور۔ آخر انہوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ میاں، بیوی اپنی عداوت کی سزا انہیں دیں۔ معصوم بچوں کو صدمات سے دوچار کریں اور ان کا مستقبل برباد کریں۔ حدیث شریف ہے کہ کسی خاندان کو اُجاڑ کہ اس کی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ کر شیطان جتنا خوش ہوتا ہے ،کسی دوسرے جرم پر اتنا خوش نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ شیطان کی تابع داری سے بچوں کا مستقبل تباہ ہوتا ہے۔ الغرض میاں، بیوی کا یہ شعار ہونا چاہئے جو ارشاد نبوی کے مطابق ہو، یعنی ایک مومن شوہر اپنی بیوی سے بُغض، عداوت اور نفرت نہ رکھے، کیونکہ بیوی کی اگر ایک عادت اسے ناپسند ہوتی ہے تو کسی دوسری عادت سے اسے خوشی بھی ضرور ہوتی ہے۔ آخر میں اس حدیث مبارکہ کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں۔ ارشاد نبوی ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ بالکل سیدھی ہرگز نہ ہوگی اس سے فائدہ کے حصول کی خواہش ہو تو اس کی کجی کے ساتھ فائدہ حاصل کر سکتے ہو اور اگر اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کو توڑنا اس کو طلاق دینا ہے۔( مسلم ،باب الوصیت بالنسائ) (ختم شد) ٭