”شہر کرم“ پر کرم ہی کرم

 ”شہر کرم“ پر کرم ہی کرم
 ”شہر کرم“ پر کرم ہی کرم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  راقم ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب ایک روز اپنے دوستوں، خورشید،رشید،یوسف اور افضال کے ساتھ اسی موسم برسات کے برستے ساون بھادوں میں پاجاما پہنے اپنی گلی میں بارش کے پانی  میں نہا نہا کر نہال ہو رہا تھا،اچانک سامنے سے ایک بزرگ ہستی دکھائی دی جو ساتھ ہی کے محلہ شاہ نصیب دریائی میں جلوہ افروز ہوتے تھے۔راقم  چھوٹا سا بچہ،  بارش کے پانی میں نہایا،بھاگتا ہوا گیا اور ان کے ساتھ ہاتھ ملانے لگا انہوں نے دونوں ہاتھوں کے ساتھ کمال شفقت سے مصافحہ کیا اور کھڑے ہوکر گھر والوں کا حال احوال یوں پوچھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو،حالانکہ ایک بچے(راقم)کی یہ ان سے پہلی ملاقات تھی، بزرگ آگے گزر گئے لیکن بچے کے معصوم ذہن وقلب پر اخلاقیات کے وہ  نقوش پیوست کر گئے کہ آج چالیس سال گزرنے کے باوجود جب آنکھوں کے سامنے وہ واقع وا ہوتا ہے تو آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ یہ شخصیت کوئی اور نہیں حضرت ضیاء  الامت پیر محمد کرم شاہ الازھریؒ کی ذات بابرکات تھی،جو نہ صرف بھیرہ بلکہ پاکستان کی ایک عظیم علمی، فکری تہذیبی اور روحانی شخصیت کے طور پر معروف ہیں، بلکہ انٹر نیشنل لیول پر تصوف وطریقت،عمل و عرفان اور اسلام،قرآن و سیرت کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ بھی ہیں۔قبلہ پیر صاحب میرے ہی شہر میں یکم جولائی 1918بمطابق21رمضان1336ہجری بعد از نماز تراویح پیر محمد شاہ رح  کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا شجرہ نسب کئی واسطوں سے  شیخ السلام حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی رح سے جا ملتا ہے۔آپ نے ابتدائی تعلیم  اپنے آباء کے قائم کردہ محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول سے مکمل کی اس کے بعد گور نمنٹ ہائی سکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ نے  دورہ تفسیر کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بی اے کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مکمل کی۔اس کے بعد آپ نے اس زمانے کی معروف علمی درس گاہ جامع الازہر مصر سے ایم فل اس اعزاز کے ساتھ پاس کیا کہ تمام اساتذہ آپ کے علم وفضل اور اخلاق کے معترف ہوئے، جس کا ثبوت ان کے جاری کردہ وہ سر ٹیفکیٹ اور خطوط ہیں جن میں آپ کی  ذات اور صلاحیتوں کا کمال اعتراف ہے۔

یہ اس دور کی بات ہے جب مصر جانا ہی جان جوکھوں سے عبارت تھا۔تکمیل تعلیم کے بعد آپ وطن واپس تشریف لے آئے۔آپ کو حکومت پاکستان نے اس دور کی پاکستان کی معروف درس گاہ جامعہ عباسیہ بہاولپور موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے شعبہ کی سربراہی کی آفر کی،جو بہت بڑا اعزاز تھا لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا بلکہ اپنے والد محترم کے قائم کردہ ادارے ہی کی نشاط ثانیہ کا فیصلہ کیا۔ایک مستند روایت کے مطابق  آپ نے ابتدائی طور پر  دس طلبا پر دس سال محنت کر کے ایک ایسے ادارے کی بنا رکھی جس کے نصاب تعلیم میں دین ودنیا کا امتزاج رکھا گیا۔اس نصاب کو آپ نے اپنی زرعی زمین کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر مرتب کیا تھا جو  آج پوری دنیا کے سینکڑوں اداروں میں نہ صرف پڑھایا جارہا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کو سراہا بھی گیاہے۔قبلہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الازھریؒ ادب و انکساری میں اس مقام پر فائز تھے جہاں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ سپریم کورٹ کے جج تھے آپ کی رشتہ دار ایک بزرگ خاتون جو میری ہمسائی تھی وہ ”اماں جی“ کے نام سے معروف تھیں،71ء کی جنگ میں ان کے کیپٹن بیٹے کی شہادت کے صدمے نے انہیں ذہنی طور پر کچھ ماوف کردیا  تھا۔قبلہ پیر صاحب رح کا وہاں سے گزر ہوا۔ ”اماں جی“ نے اونچی آواز میں کہا پیر کرم شاہ صاحب ادھر آو آپ ان کے پاس  چلے گئے اور دروازے کے سامنے تھڑے پر نظرے جھکائے ان کے سامنے کھڑے رہے نہ ”اماں جی“ نے بیٹھنے کو کہا اور نہ ہی آپ، دنیا تصوف کے گوہر تاباں، سپریم کورٹ کے جج،بیٹھے۔ آدھ گھنٹہ آپ سے انہوں نے باتیں کیں۔آپ عاجزی سے جواب دیتے رہے اور مسکراتے رہے، کئی دفعہ ماں جی کا لہجہ سخت ہوجاتا مجال کے آپ کی جبین ناز پر کوئی شکن ہی پڑی ہو تن تنہا بڑی دیر تک ان کے دل کو بڑھاوا دے کر آپ تو رخصت ہوگئے۔ آہ! وہ وضع دار لوگ،علم وعمل،فکر و نظر سے بھر پور لوگ، رواداری اور شفقتوں کے منبع لوگ،رفعت بلندی پر فائز ہونے کے باوجود منکسر مزاج لوگ،تہی دامن و تنگ دستوں کے آسرا لوگ، کہا ں چلے گئے۔ان کے جانے سے میرے شہر کا وہ روحانی سکون سرور بھی رخصت ہوا جو انھیں کے دم سے قائم تھا۔وہ باکمال لوگ ہر پہلو سے باکمال تھے۔ میرے شہر میں کوئی بھی دینی تحریک چلی قبلہ پیر صاحب سارے مسالک کے علماء کو  ساتھ لے کر چلے۔

ان کا اختلاف رائے علمی ہوتا تھا تکفیری نہیں، عمر کے آخری دنوں میں جب ایک متشدد گروہ نے ایک علمی شخصیت کے حوالے سے جو دوسرے مسلک سے متعلق تھے ، تکفیری فتوی مانگا آپ نے واضح طور پر فرمایا میں کسی مسلمان کو کافر نہیں کہ سکتا۔پیر محمد کرم شاہ الازھریؒ  ایک روایتی پیر یا معلم نہیں تھے وہ تصوف میں خاص مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ منجھے ہوئے لکھاری،صاحب مطالعہ صحافی، علم وفکر سے منور معلم اور صاحب بصیرت قاضی (جسٹس)تھے ان کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر ”ضیاء القرآن“ قرآن مجید کی تفاسیر میں خاص مقام رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیرت النبی پر آپ کی لکھی گئی ”ضیاء النبی“کی سات جلدیں تمام مکاتب فکر میں حوالے کی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان ادب کے حوالے سے بھی شاہکار ہے۔میں نہ تو آپ کا مرید ہوں اور نہ ہی طالب علم،ہو سکتا ہے میرے ان کے نظری وفکری خیالات میں بھی ہم آہنگی  نہ ہو لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی آنے والے برسوں میں نظیر ملنا مشکل ہے۔بلاشبہ آپ نابغہ عصر اور علمی حوالے سے مجتہدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔آپ روایتی صوفی صافی نہیں بلکہ دور جدید کے تقاضوں سے آشنا مدبر، مفکر، سکالر،محقق، تاریخ دان، قانون دان، قاضی وقت اور وہ کچھ تھے جو آنے والے محققین کو دعوت دیتے ہیں کہ نہاں خانوں سے جوہر تاباں کی تلاش کرکے آنے والی نسلوں کو ان جیسی صاحب بصیرت ہستی سے روشناش کروائیں۔آپ ایک لمبے عرصے تک سپریم کورٹ کی شرعی عدالت کے جج بھی رہے،جہاں آپ نے وہ تاریخی فیصلے لکھے جن کا ایک عالم معترف ہے۔ آپ روحانی طور پر آستانہ عالیہ سیال شریف سے منسلک اور  حضرت پیر خواجہ قمرالدین سیالوی رح کے ایسے چہیتے خلیفہ تھے، جن کے بارے میں پیر سیال نے فرمایا تھا ”پیر کرم شاہ میری آنکھوں کا نور ہے صرف یہی نہیں بلکہ پیر سیال کے روضے کا مینار ہے“ آپ کا وصال  نو دس ذوالحجہ 1418 ہجری بمطابق 1998ء کی درمیانی رات کو نو بج کر ستائیس منٹ پر میڈیکل کمپلیکس اسلام آباد میں بعمر 87 سال ہوا۔آپ  کے وصال کے وقت سے تدفین تک  بھیرہ میں عیدالضحیٰ کے دن  بوندا باندی کا خوب صورت اور رحمتوں بھرا وہ سما ہوا تھا جس کو آج بھی لوگ  یادکرتے ہیں۔سب سے خوشی کی بات یہ ہے  کہ آپ کے جانشین امین امانات کرم حضرت پیر  امین الحسنات شاہ صاحب  نے آپ کے مشن کو نہ صرف زندہ رکھا ہوا  ہے بلکہ یوں  پھیلایا ہے کہ آج آپ کا قائم کردہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف، الکرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کی صورت  میں علم کو جلا دے رہا ہے۔یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ پاک وہند کی معروف درگاہوں کے جانشین اسی علمی درسگا سے فارغ التحصیل ہوکر نسلوں کی علمی تشنگی کی آبیاری کر رہے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک اٹھارہ انیس اور بیس محرم الحرام کو بھیرہ شریف میں انعقاد پزیر ہوگا جس میں دنیا بھر کے مسلمان عمومی طور اور اہل ِ علم و اہل ِ سیاست وسیادت خصوصی طور پر شرکت کرے گے۔تین روز تک بھیرہ میں علم وعرفاں کی وہ  برسات رہے گی جس سے اہل علم وخیر مستفیض ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -