ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 57
فرشتوں کا سیکیورٹی الارم
اگلی صبح ہم فجر کے بعد ناشتہ کر کے ائیرپورٹ کے لیے نکلے ۔ مدثر صاحب نے ائیر پورٹ تک چھوڑ دیا تھا۔ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ چونکہ یہاں کی سوسائٹی کے ساتھ عملی طور پر جڑ ے ہوئے ہیں یعنی کمیونٹی واچ کا حصہ ہیں اس لیے ان کے پاس یہاں کے معاشرے کے بارے میں بڑ ی معلومات تھیں ۔جس سے مجھے یہاں کی زندگی اور معاشرے کوسمجھنے میں مدد ملی۔اسی طرح ان کی بہترین میزبانی کی بنا پر ان کے گھرکا ایک دن کا قیام بہت خوشگوار رہا تھا۔ہماری اگلی منزل کینبرا تھی جو کہ آسٹریلیا کا دارالحکومت تھا۔
مجھے برسبین ائیر پورٹ پر ایک عجیب تجربہ ہوا۔میں گھر سے ایسے کپڑ ے پہن کرنکلا جس پر دھاتی بٹن تھے ۔یہ لباس ابھی تک نہیں پہنا تھا ۔اس لیے سیکیورٹی چیکنگ سے قبل اندیشہ ہوا کہ ان کی وجہ سے الارم بج گیا تو خواہ مخواہ میں تفصیلی چیکنگ میں وقت ضائع ہو گا۔تاہم ایسا نہیں ہوا اور میں اطمینان سے آگے بڑ ھ گیا۔ اس لمحے مجھے یہ احساس ہوا کہ ہم لوگ کس طرح یہ بات بھول کر جیتے ہیں کہ کتنے ہی بوجھ ہم نے وہ اٹھارکھے ہیں ، جن کو خدا کے فرشتے روز حشر جب چیک کریں گے تو الارم بجنا ہی بجنا ہے ۔ مگر ہم کسی غلطی کی وجہ سے نہیں بلکہ جانتے بوجھتے معصیت و نافرمانی کے ان بوجھوں سے لدے پھرتے ہیں ۔ہمیں کوئی اندیشہ نہیں ہوتا کہ ہمیں روک لیا گیا تو ہمارا کیا حشر ہو گا۔ انسان کو یہ احساس ہوجائے تو وہ بڑ ے گنا ہوں کے ساتھ چھوٹے گنا ہوں سے بھی بچتا رہے اور مسلسل توبہ کرتا رہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میگنا کارٹا اور مکڑ ی کا جالا
میں اور ذوالفقار صاحب تقریبا دو گھنٹے میں برسبین سے کینبرا کے چھوٹے سے ائیر پورٹ جاپہنچے ۔ اگر تین چارلاکھ کی آبادی کو شہر کہا جا سکے تو کینبرا واقعی ایک شہر تھا۔ لیکن اس آبادی کے ساتھ بھی یہ آسٹریلیا کا سب سے بڑ ا غیر ساحلی شہر ہے ۔ اس شہر کو ملبورن اورسڈنی کے درمیان دارالحکومت بننے کا جھگڑ ا نمٹانے کے لیے الگ سے بنایا گیاتاکہ ان دونوں کے بجائے ایک تیسری جگہ کو یہ اعزاز مل سکے ۔اسے ایک گارڈن سٹی کے طور پر بنایا گیا ہے اور شہر میں ہر جگہ درخت اور پارکس موجود ہیں ۔
ائیرپورٹ پر ہمارے میزبان جناب تنویر خان صاحب ہمارے منتظر تھے ۔ وہ ہمیں پہلے پارلیمنٹ ہاؤس لے گئے ۔ یہاں ہم اطمینان سے پارلیمنٹ کے اندر گئے اور تمام مقامات کا بلا روک ٹوک جائزہ لیا۔ نیشنل اسمبلی جسے یہاں ایوانِ نمائندگان کہا جاتا ہے اور سینیٹ دونوں کو دیکھا۔یہاں کے نظام کی تفصیل سمجھی۔ ایک جگہ میگنا کارٹا کو دیکھا۔یہ وہ دستاویز ہے جس نے جدید دنیا کو یہ اصول دیا کہ کوئی بھی شخص بشمول بادشاہ وقت قانون سے بلند نہیں ہوتا۔یہ دستاویز انگلینڈ کے بادشاہ جون نے 1215عیسوی میں لکھوائی ۔مگر یہاں اس کا آخری محفوظ نسخہ جو کہ1297کا تھا موجود تھا۔ اس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا کہ کوئی قانون سے بلند نہیں ہے اور یہی جدید دنیا میں قانونِسیاست کا بنیادی اصول ہے ۔
قانون کی حکمرانی کا جو عملی نمونہ دنیا کے سامنے خلافت راشدہ نے پیش کیا تھا، آج ہمارے لیے بالکل اجنبی ہے ۔ہمارے ہاں قانون مکڑ ی کا جالا ہے ۔ کوئی کمزور اس سے نکل نہیں سکتا اور کسی طاقتور کو یہ پکڑ نہیں سکتا۔ میرے خیال میں ہماری پارلیمنٹ میں میگنا کارٹا کے بجائے مکڑ ی کے جالے کی تصاویر لگادینا چاہئیں ۔ اس سے کم از کم منافقت کا خاتمہ توہو ہی جائے گا۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں جمہوری نظام کا بوریا بستر لپیٹنے کی بات کر رہا ہوں ۔ ہمارے جیسے لوگوں کا کام جمہوریت پر تنقید کرنا ہے ، اس کو ختم کرنے کی حمایت کرنا نہیں ہونا چاہیے ۔ ہماری جمہوریت کو اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ ایک اصلاح جو ہم کینبرا سے لے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی طرح ہمارے ہاں بھی الیکشن ہر تین سال بعد ہوں ۔اس کے بعد ہی حکمرانوں کو یہ احساس ہو گا کہ اب پانچ کے بجائے تین سال بعد عوام کے سامنے جانا ہے ۔ تب ہی ان کے معاملات بہتر ہوں گے ۔اس وقت چونکہ کرپشن اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہے اس لیے پاکستانی سیاسی اشرافیہ کا احتساب قانونی ڈھانچے میں رہ کر کرنا آسان نہیں ۔ زیادہ موثر احتساب یہی ہے کہ حکمران عوام کے سامنے بار بار اور جلدی جلدی جائیں ۔ساتھ ہی شفاف الیکشن کو یقینی بنایا جائے ۔ اس کے بعد پچاس میں آنے والی تبدیلی پچیس سال میں آجائے گی۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
پاکستانی سفیر کے بچوں کی تعلیم
پارلیمنٹ سے نکل کر ہم لوگ دوبارہ گاڑ ی میں بیٹھے اور تنویر خان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں پاکستانی سفارتخانہ بھی دیکھا ۔اسے دیکھ کر وہ واقعہ یاد آ گیا جو ذوالفقار صاحب نے اسی سفر میں کسی موقع پر سنایا تھا۔ آسٹریلیا میں ان کے زمانہ تعلیم میں کسی موقع پر پاکستان کے سفیر طلباء کی کسی تقریب میں مدعو تھے ۔جب سوالات کچھ تند و تیز ہونے لگے تو فرمایا کہ بھئی میں تو اپنے بچوں کو پڑ ھانے کے لیے یہاں آیا ہوا ہوں ۔
تنویرخان صاحب کے گھر پہنچے تو ایک دفعہ پھر ایک زبردست دعوت ہماری منتظرتھی۔کھانے کے بعدسڈنی سے ہمارے تین ساتھی آ گئے ۔ ان میں کامران مرزا صاحب فرخ صاحب اور عابد صاحب شامل تھے ۔ ان کو دیکھ کر اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا پردیس میں اپنے ہم وطنوں کو دیکھ کر ہوتی ہے ۔ ان تینوں نے پروگرام کا انتظام سنبھالا جو کہ تنویر صاحب کے گھر کے لان میں ہونا تھا۔ کینبرا کی ٹھنڈی ہوا میں باہر بیٹھ کر پروگرام کرنا ایک مشکل کام تھا لیکن اللہ نے آسان کر دیا۔ جب تک میں گفتگو کرتا رہا مجھے کسی لمحے ٹھنڈ نہیں محسوس ہوئی، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب مجلس میں بیٹھی بعض خواتین اٹھ کر گھر میں گئیں اور اندر سے شال لا کر ان کے ذریعے سے سردی سے اپنا بچاؤ کرنے لگیں ۔تاہم پروگرام ختم ہوا تو ایک دم سے محسوس ہوا کہ سخت سردی ہو چکی ہے ۔ جائے عافیت یہی تھی کہ اندر جایا جائے اور ہیٹر کی گرمی میں بیٹھ کر غیر رسمی کوئی بات چیت ہے تو کی جائے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں