ایک حادثے نے میری اور والدین کی زندگی میں بھونچال بر پا کر دیا، دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی، گھر کی عورتیں رونے دھونے لگیں،دل خراش خبر تھی

ایک حادثے نے میری اور والدین کی زندگی میں بھونچال بر پا کر دیا، دونوں آنکھوں ...
ایک حادثے نے میری اور والدین کی زندگی میں بھونچال بر پا کر دیا، دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی، گھر کی عورتیں رونے دھونے لگیں،دل خراش خبر تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط40:
 بینائی اور صوفی برکت علیٰ ؒ؛     
 دوسری جماعت میں تھا اور وقت اچھا گزر رہا تھا کہ اچانک ایک حادثے نے میری اور میرے والدین کی زندگی میں بھونچال بر پا کر دیا۔ اپریل مئی کا مہینہ تھا اور ماسی بکھاں پرانی رضائیوں کو ادھیڑ رہی تھی تاکہ نئے سرے سے روئی کی پنجائی کروا کر پھر سے اگلے موسم سرما کے لئے تیار کر دی جائیں۔ ماسی بکھاں یہ کام لمبے لمبے تکلوں کے ساتھ صحن میں بیٹھے کر رہی تھی کہ میں بھی اس کے پاس پہنچا اور ضد کرکے رضائی کے ٹانکے ادھیڑنے لگا۔ ابھی دوسرے ہی ٹانکے میں سوئی اٹکا کر کھنچی۔ میری بد قسمتی وہ دھاگے سے پھسلی اور سیدھی میری بائیں آ نکھ میں جا گھسی۔ میری دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ میری چیخوں میں میری والدہ کی چیخیں مجھ سے بھی اونچی تھیں۔ گھر کی سبھی عورتیں رونے دھونے لگیں۔ ابا جی کو اطلاع دی گئی وہ فوراً گھر  پہنچے۔ قریب ہی گلی کی نکڑ پہ ”ڈاکٹر ڈین“ کا کلینک تھا۔ وہ کرسچین ڈاکٹر بہت سمجھ دارتھے۔ علاقے میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔ انہوں نے بری خبر سناتے میرے والدین سے کہا؛”چوٹ ریٹنامیں لگی ہے کوئی آنکھوں کا ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اب نظر کا واپس آنا ممکن نہیں۔“ دل خراش خبر تھی۔ میرے ماں باپ کی دنیا اجڑ گئی تھی یقیناً غم سے ان کا تو برا حال ہوا ہو گا۔ ابا جی نے اپنے امریکی باس مسٹر ریکسن(rixson)سے بات کی۔ وہ رحم دل انسان تھا۔ اس نے ابا جی سے کہا؛”اس کی رپورٹس مجھے دو۔ میں امریکہ بھیجتا ہوں اگر اس کا علاج وہاں ممکن ہوا تو سارا خرچہ کمپنی برداشت کرے گی۔میری  میڈیکل رپورٹس امریکہ اور جرمنی بھجوائی گئیں لیکن کہیں سے بھی کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ ملا۔ میرے والدین کے لئے ہر طرف مایوسی اور میرے لئے تاریکی تھی۔ اس اندھیرے میں کہیں سے بھی روشنی کی کوئی کرن پھوٹھتی نظر نہ آتی تھی۔ابا جی اپنے گاؤں ۵۹۲ گ ب بیریاں والا تحصیل و ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ گئے(ابا جی کی وراثتی زمین تھی وہاں۔) اور اپنے مزارع بھا ئی غفور سے میرے ساتھ پیش آنے والا ماجرہ سنایا۔ ان کی مین بازار ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بیجوں کی دوکان ہوتی تھی۔انہوں نے سن کر کہا:”بھا جی! بٹو(میرا عرفی نام) کو سالار والے لے جائیں۔وہاں ایک بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ”صوفی برکت علی صاحب(حضرت برکت علی انیس المعروف باوا جی) کے پاس لے جائیں۔ انشا اللہ ضرور اللہ مدد کرے گے۔“ ابا جی واپس شورکوٹ آئے۔ والدہ کو بتایا۔ میری نانی بھی شورکوٹ پہنچ چکی تھیں تاکہ باقی بچوں کی دیکھ بھال ہو سکے۔امی جی نے مجھے ساتھ لیا اور ریل سے سالار والے پہنچ گئیں۔ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ جاتے ہوئے مٹھائی بھی لے گئیں۔ بقول امی جی؛”باوا جی مٹھائی کا ڈبہ دیکھ کر جلال میں آئے اور بولے؛”کاکی! ایتھوں کج لیں آئی ساں یا کج دیں آئی اں۔“ بغیر بات سنے میری والدہ کو نکال دیا۔ امی جی واپس شور کوٹ آئیں۔ سٹیشن سے بیڈ شیٹ خریدی، اپنے اوپر اوڑھی۔ ابا جی کو ساتھ لیا اور کہا؛”مجھے اس بزرگ میں کچھ نظر آ یا ہے۔ دوبارہ ان کے پاس چلتے ہیں۔“ اگلی ریل سے سالار والے پہنچے۔مغرب کا وقت تھا۔ باوا جی اپنے گھر پر تھے جو ان کی چھوٹی سی کچی مسجد کے ساتھ ہی تھا۔ میرے والدین مجھے ان کے گھر لے گئے۔ وہ جلالی درویش تھے۔ دیکھ کر غصے میں بولے؛”توں فیر آ گئی ایں۔ جا چلی جا۔“ امی جی بتاتی تھیں؛”کہ میں نے ان سے کہا؛”باواجی میرے بچے کی آ نکھ میں سوئی لگنے سے اس کی بنیائی چلی گئی ہے۔ آ پ کے پاس بڑی آس لئے آئے ہیں۔“ سن کر بولے؛”اسی کوئی ڈاکٹر آں جا کسی داکٹر نوں دکھا۔ ایتے کی لین آئی آں۔“ میری والدہ کے آنسو نکل آئے۔ باوا جی کی بیگم ساری گفتگو سن چکی تھیں؛ بولیں؛”کنا سوہنا منڈا(بچہ) اے۔ کیوں ناراض ہوندے او۔ جاؤ دعا کر دیو۔ اللہ کرم کر ے گا۔“ امی جی بتاتی تھیں؛ ”پتر!تم اپنے باپ کی گود میں تھے۔ باوا جی نے ایک ہاتھ سے تیرے باپ کو اور دوسرے سے مجھے پکڑا اور ہمیں دھروتے(کھینچتے) ہوئے اپنی مسجد کی طرف چل دئیے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -