ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال-تصویر کا دوسرا رخ

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال-تصویر کا دوسرا رخ
ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال-تصویر کا دوسرا رخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال جاری ہے اوربیمار انسانوں کوتڑپتا چھوڑ کر نوجوان ڈاکٹرز اپنے غیر معقول مطالبات کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز پر آ کر یہ ڈاکٹر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش بھی کر رہے ہیں ۔ عوام حقائق کو سمجھتے ہیں اور مسیحا¶ں کے کردار کو بھی جانتے ہیں اس لئے اب ان ہڑتالی ڈاکٹروں کا اصل چہرہ سامنے آ چکاہے اور حکومت پنجاب کے ہنگامی اقدامات کے باعث عوام کو صحت کی سہولتیں بلا تعطل ملنا شروع ہو گئی ہیں۔
حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی عوامی فلاح و بہبود کے لئے عملی منصوبے شروع کئے ان میں جدید تعلیم اور معیاری صحت کی سہولتوں کی فراہمی حکومت کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے ۔ اسی لئے گزشتہ برس ینگ ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں ریکارڈ اضافہ کیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں صوبوں کے ڈاکٹرز بھی پنجاب کی طرز پر معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔گزشتہ برسوں میں ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے تو انہوں نے اس سال بھی مالی فوائد کے مطالبات کا لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حکومت نے ہر شعبہ میں اصلاحات نافذ کرنا ہوتی ہیں اور اپنے بجٹ کے اندر رہ کر سہولتیں فراہم کرتی ہے اب حکومت پنجاب کے پاس تیل کے ذخائر تو ہیں نہیں کہ وہ سعودی عرب یا خلیج کی ریاستوں کے برابر مشاہرہ ڈاکٹروں کو دے ۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ملک کے عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے نوجوان ڈاکٹروں کی تعلیم و تربیت پر اٹھنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کا بوجھ غریب عوام نے برداشت کیااور آج یہی ینگ ڈاکٹرز ان غریبوں کے علاج معالجے کی بجائے ہڑتالیں اور دنگا فساد کر رہے ہیں -
ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے گزشتہ سالوں بھی ہڑتالیں کیں جس کے دوران ہسپتالوں کے ایمرجنسی اور ان ڈورز وارڈز میں بھی کام بند کر دیا تھا - وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے ڈاکٹر کمیونٹی کی فلاح و بہبود بالخصوص ینگ ڈاکٹرز کو خصوصی مراعات دینے کے لئے تقریبا 5 ارب روپے کے پے پیکج کا اعلان کیا - اگر دیگر سرکاری محکموں کے افسران اور ڈاکٹروں کی تنخواہوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سکیل 17 کا ایک ڈاکٹر جو دیہی علاقے میں فرائض سرانجام دیتا ہے اسے تقریبا 60 ہزار روپے جبکہ سول آفیسر کو 29 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے - اسی طرح شہری علاقے میں گریڈ 17کے ڈاکٹر کو 48 ہزار سے 72 ہزار تک معاوضہ ملتا ہے جبکہ دیگر محکمے کے اسی گریڈ کے افسر کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا-اسی طرح گریڈ18 کا ڈاکٹر ٹیچنگ ہسپتال میں 81 ہزار سے ایک لاکھ 75 ہزار ماہانہ تک وصول کرتا ہے جبکہ گریڈ 18 کے سو ل آفیسر کی تنخواہ تقریبا 37 ہزار بنتی ہے -گریڈ 20 میں کام کرنے والا ٹیچنگ ہسپتال کا ڈاکٹر ایک لاکھ 19 ہزار سے 2 لاکھ 29 ہزار روپے تک تنخواہ وصول کرتا ہے جبکہ گریڈ 20 کے سول آفیسرکی تنخواہ ایک لاکھ چار ہزار روپے بنتی ہے - یوں دیکھا جائے تو عام سرکاری محکمے کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی تنخواہیں سینکڑوں گنا زیادہ ہیں جبکہ مہنگائی اور دیگر مسائل کا دونوں کو ہی یکساں سامنا کرنا پڑتا ہے -وزیر اعلی کے احکامات پر 900 ڈاکٹرز کو کنٹریکٹ سے مستقل کیا گیا جبکہ 1500 مزید کنٹریکٹ ڈاکٹرز کو مستقل کیا جا رہا ہے اس طرح کل 2400 ڈاکٹرز مستقل ہو جائیں گے -حکومت نے نوجوان ڈاکٹروں کو بے روزگاری سے بچانے کے لئے 4700 ڈاکٹرز کو واک ان انٹرویو کے ذریعے ایڈہاک پر بھرتی کیا جبکہ 4332 ڈاکٹرز کی بھرتی کے لئے پنجاب پبلک سروس کمیشن کو ریکوزیشن بھجوائی گئی ہے - ڈاکٹرز کے مالی حالات بہتر بنانے کے لئے جو اضافی الا¶نسز ملتے ہیں ان کے نتیجے میں 17 سے 20 گریڈ کے ڈاکٹرز کو دوسرے محکموں میں یکساں گریڈ کے ملازم سے 106 فیصد سے 372 فیصد زیادہ مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں -ڈاکٹروں کو تنخواہوں کے علاوہ جو خصوصی الا¶نس ملتا ہے اس میں ہیلتھ سیکٹر الا¶نس کم از کم پانچ ہزار زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے ماہانہ، ایمرجنسی وارڈز میں فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹرز کو بنیادی تنخواہ کا 50 فیصد زیادہ ملتا ہے -اسی طرح ہیلتھ پروفیشنل الا¶نس 10 ہزار سے 15 ہزار روپے ماہانہ ، اینستھزیا الا¶نس 10 ہزار سے 25 ہزار روپے ، بنیادی سائنس کے شعبہ کے لئے ٹیچنگ الا¶نس 5 ہزار سے 30 ہزار روپے تک ، خصوصی پے پیکج برائے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں 15 ہزار سے 60 ہزار روپے (اضافی)، خصوصی پے پیکج برائے شیخ زید میڈیکل کالج رحیم یار خان 20 ہزار سے 80 ہزار روپے تک ماہانہ (اضافی)، چار نئے بننے والے کالجز کے لئے خصوصی پے پیکج 20 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ماہانہ اضافی دیئے جاتے ہیں -ان تمام اضافی مالی فوائد کے باوجود ینگ ڈاکٹرز نے جو تازہ مطالبات حکومت کو پیش کئے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ایک اندازے کے مطابق 960 ارب روپے کی خطیر رقم درکار ہوگی- ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن نے 19 جو ن 2012ءکو حکومتی عہدیداران کے ساتھ اجلاس میں اپنے مطالبات مرحلہ وار پورے کرنے کا جو عندیہ دیا ہے ان کی کل مالیت کا تخمینہ 26286.864 ملین روپے بنتا ہے -
عوام حیران ہیں کہ اربوں روپے کی اضافی مراعات ملنے کے باوجودینگ ڈاکٹرایسے مطالبات کیوں کر رہے ہیں جن کو پورا کرنا موجودہ معاشی بحران میں حکومت وقت کے لئے نا ممکن ہے اورینگ ڈاکٹرز کے موجودہ مطالبات محکمہ صحت کا تمام بجٹ خرچ کرنے کے باوجود پورے نہیں کئے جاسکتے-پنجاب حکومت نے ہڑتالی ڈاکٹرز کو پیشکش کی کہ وہ ہڑتال ختم کر کے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کروائیں اورسسکتی انسانیت کو تڑپتا نہ چھوڑیں کیونکہ ان کے ان اقدامات کے باعث غریب مریض جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں لیکن ڈاکٹرز کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت پہلے ہمارے مطالبات پورے کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے - ڈاکٹرزجن کو انتہائی اعلی تعلیم یافتہ طبقہ سمجھا جاتا ہے ان کا اس قدر غیر لچکدار رویہ ناقابل فہم ہے -اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے انسانی جانوں کو ڈھال بنانے والے مسیحا کہلانے کے حق دار نہیں - انہیں زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ دور دراز کے علاقو ں سے آنے والے ہزاروں غریب مریض جن میں ضعیف و لاچار مرد و خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں وہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے اس چل چلاتی گرمی میں مسیحا¶ں کے انتظار میںبے یارومددگار ہسپتالوں کے برآمدوں میں بیٹھ کر بددعا ئیں دیتے واپس جاتے ہیں - ہڑتال کی وجہ سے ذلیل وخوار ہونے والے ان مریضوں میں سے بہت سوں کے پاس واپسی کا کرایہ تک نہیں ہوتا -
حکومت پنجاب کے اقدامات لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے پبلک سروس کمیشن سے منتخب شدہ 454خواتین میڈیکل افسروں کو مختلف ہسپتالوں میں تعینات کر دیا ہے اور مزید 400خواتین ڈاکٹرز اور 200مرد ڈاکٹرز کی تقرری و تعیناتی کے لئے اقدامات کئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ صوبہ کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں میڈیکل افسران کی خالی اسامیوں پر ایڈہاک ڈاکٹرز کو تعینات کیا جارہا ہے تاکہ ہڑتالی ڈاکٹروں کی کمی پوری ہو سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبائی محکموں جیسے سوشل سیکورٹی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور سی ایم ایچ کے ڈاکٹرز کو خصوصی طور پر حفاظتی اقدامات میں عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ڈیوٹی دی گئی ہے جو کہ انتہائی قابل تحسین ہے۔میں ڈاکٹرز سے کہوں گا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر مقدس پیشے کی طرف واپس آئیں اور بیمار انسانوں کے زخم پر مرحم رکھیں ، میں حکومت سے بھی کہوں گا کہ ان عوامل کی پوری تحقیقات کی جائے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز کو یہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑا اور قیمتی جانوں کا ضیا ع ہوا جو ناقابل تلافی ہے۔ ہڑتالی کلچر کو ختم کرنے کے لئے صرف قوانین کا نفاذ مقاصد حل نہیں کر سکتابلکہ ہڑتالو ں کا سبب بننے والی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے ۔

مزید :

کالم -