محنتی باپ اور گولڈمیڈلسٹ بیٹی!

 محنتی باپ اور گولڈمیڈلسٹ بیٹی!
 محنتی باپ اور گولڈمیڈلسٹ بیٹی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  ہمت اور حوصلے جواں ہوں تو انسان کیا نہیں کر سکتا۔ موقر اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایک محنت کش  والد اور اس کی بیٹی کی تصویر اور تفصیل نظر سے گزری۔کیپشن اتنا اچھا تھا کہ اس کو مکمل پڑھنے کو دل چاہا۔ ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں،لیکن آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اسی وجہ سے اب ایسی خبریں لوگوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ 
مدعا کچھ یوں ہے کہ اوکاڑہ کے اخبار فروش محمد انور نے تمام عمر محنت مزدوری کی، مشکل حالات میں بھی بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمد انور 46 سال سے اخبار فروخت کر رہے ہیں۔اوکاڑہ کے اس ایک غریب محنت کش اخبار فروش محمد انور کی صاحبزادی ڈاکٹر فاخرہ انور نے حال ہی میں ایم بی بی ایس میں سات گولڈ میڈل حاصل کر کے نئی تاریخ رقم کی۔  فاخرہ نے والد کی محنت کا صلہ دے دیا۔ پوری قوم کو محنت کش محمد انور اور ان کی بیٹی پر فخر ہے اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر فاخرہ انور کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
اخبار فروش محمد انور کا کہنا تھا کہ میں گھریلو حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑنا پڑی۔مناسب ملازمت نہ ملنے پر 46 سال پہلے اخبار فروخت کرنے کا کام شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ بارش ہو یا آندھی گرمی ہو یا سردی اپنی ذمہ داری سے نہیں گھبرایا۔ اخبار بیچ کر اپنے گھر کا کچن چلایا تو ساتھ ہی اپنے مشن کی تکمیل کے لئے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ میرے بیٹے نے ڈی فارمیسی کی تعلیم حاصل کی اور ایک اعلی افسر ہے۔ ایک اور بیٹی ایم فل کیمسٹری کرکے بطور لیکچرار ملازمت کر رہی ہے۔ چھوٹی بیٹی ایم فل زولوجی جبکہ بیٹا بی ایس اونر کر کے ماسٹر ڈگری کا طالب علم ہے۔محمد انور کے بچوں کو اپنے والد پر فخر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج وہ جس مقام پر بھی ہیں اللہ تعالی کی کرم نوازی کے بعد اپنے والدین کی محنت کی بدولت ہیں، محمد انور آج بھی اخبار فروخت کرتا ہے۔
اخبار فروش محمد انور نے معاشی مشکلات سے گھبرانے کی بجائے  محنت مزدوری جاری رکھی اور معاشرے میں  مثال قائم کر دی۔


محنت سے یہ مانا چور ہیں ہم
آرام سے کوسوں دور ہیں ہم 
پر لڑنے پر مجبور ہیں ہم 
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم 
ایک شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ 
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا 
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے 
اگر ہم نظر دوڑائیں تو ایسی بہت سی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ویسے بھی آج اگر کسی بھی بڑے سرکاری افسر کی کہانی کوسنا جائے تو ہوسکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہات سے ہو اور ان کے والدین کا انہیں اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ہوجنہوں نے زمین کاسینہ چیر کر بچے کی آبیاری کی اور اس کو پروان چڑھایا۔  ہوسکتا ہے کہ وہ بچہ تپتی دھوپ میں درخت کے سائے میں بیٹھ کر سکول کا کام کرتا ہو،رات کے اندھیرے میں دیا جلاکر آگے بڑھنے کے لئے محنت کر رہا ہو۔یہ محنت اس وقت وصول ہوتی ہے جب وہ کسی بڑے سرکاری ادارے میں افسر بن  جاتا ہے اور سرکاری گاڑی پر والدین کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے،  یا والدین کو اپنی کرسی پر بٹھاتا ہے، لیکن اس وقت بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ پسماندگی اور غربت کے باوجود بیٹیاں نا صرف تعلیم حاصل کر رہی ہیں،بلکہ انہیں اچھی ملازمت بھی مل جاتی ہے جس سے ان کے والدین کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کیونکہ صنف  نازک اب صنف آہن ہے اور والدین کا مان بڑھانے میں پیش پیش ہے۔عورت آدھی انسانیت ہے۔ عورت گھر کی ملکہ ہے۔ ایک عورت اگر خواندہ ہے تو اس سے ایک خاندان خواندہ ہوتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی ہے۔ ماں کی تربیت کا اثر بچوں پر ہمیشہ رہتا ہے۔ آگے چل کر وہ جو کچھ بنتے ہیں اس میں ماں کی تربیت کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔ ہر دور میں عورت کو ہمت، حوصلہ اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہئے۔ اسی سے قوم و ملک کی ترقی ممکن ہے۔


اسلامی تاریخ میں کئی ایسی بہادر خواتین بھی گزری ہیں جنہوں نے بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں۔ شاعری میں بھی یہ مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسی ہی لڑکی کی بہادری کو بانگ درا میں سراہا ہے۔ فاطمہ بنت عبداللہ جو عرب کے قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی تھی جو 1912ء میں جنگ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی تھی۔ 
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے راستے میں بے تیغ و سپر ہے
جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
بات کہاں سے کہاں پر پہنچ گئی۔یہ بات توماننا پڑے گی دنیا میں جتنے بھی نامور ہیں انہوں نے یہ نام اور مقام بنانے کے لئے سخت محنت کی اگر ان کی زندگی کاجائزہ لیاجائے تو ان کے والدین محنت کش ہی ہوں گے اور ان کا تعلق بھی کسی دور درا ز دیہات سے نکلے گا۔ آج کی نئی نسل سوشل میڈیا کے چکروں میں پڑ کر راستہ بھول گئی ہے اوراس بات کو بھولتی جا رہی ہے کہ ان کے والدین ان کی تعلیم و تربیت کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ دوستو دعا ہے کہ اللہ کریم سب کی اولاد کو نیکی کی توفیق دے اورسب کے لئے آسانیاں اور خیر تقسیم کرنے والا بنائے۔ آمین
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -