چوپٹ راج، اندھیر نگری
پورا کمرئہ عدالت اس وقت گونج اٹھا، جب حکومت سندھ کے دوسرے نمبر کے اہم ترین اعلیٰ افسر نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے جج جسٹس سرمد جلال عثمانی کے معلوم کرنے پر کہا کہ وہ ٹپی کو نہیں جانتے۔ ببلی فیم شازر شمعون سندھ میں بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر ہیں۔ اس عہدے کے بعدچیف سیکرٹری کا عہدہ ہوتا ہے۔ کمرئہ عدالت میں موجود افراد نے قہقہہ اس لئے لگا یا تھا کہ انہیں حیرانی ہوئی کہ شاہ زر اس ٹپی کو نہیں جانتے، جن کی جی حضوری میںوہ بیٹھ کر اکثر دن کا بڑا حصہ گزار دیتے ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ عدالت کو سوچ سمجھ کر جواب دیں: آپ کو حلفیہ بیان بھی دینا پڑ سکتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا بیان تبدیل کیا اور عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی میڈیا میں ٹپی کا نام پڑھا ہے، مگر جانتا نہیں۔درخواست گزار سید محمود اختر نقوی نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ کراچی میں سرکاری زمینوں کی لوٹ مار پر غور کیا جائے۔ ایک جج صاحب نے پوچھا کہ کیا ٹپی کوئی بھوت ہے کہ ہر آدمی اس کا نام لیتا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس نے اسے دیکھا بھی ہے۔ یہ ٹپی کون صاحب ہیں؟
27 دسمبر کی صبح حیدرآباد کی بعض سڑکوں پر دیواروں پر ایک رنگین پمفلٹ چسپاں پایا گیا۔ مرحومہ بے نظیر کی تصویر تھی، اس کے نیچے ایک لائن میں اویس مظفر لکھا ہوا تھا۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا کہ یہ اویس مظفر کون صاحب ہیں۔ پمفلٹ پر بھی کوئی اتہ پتہ درج نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیوں۔ یہ اویس مظفر وہی ہیں جن کے نام کی باز گشت عدالت میں سنی گئی۔ ٹپی ان کی عرفیت ہے جو صدر آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے کے بعد آہستہ آہستہ سندھ کے سرکاری دفاتر میںگونجنا شروع ہوئی۔ تھوڑے عرصے بعد یہ نام سندھ کے اعلیٰ سرکاری حلقوں میں سرایت کر گیا۔
بی بی کی پانچویں برسی پر ان کا پوسٹر لایا جانا اس قیاس کو تقویت بخشتا ہے کہ وہ انتخابی میدان میں بھی اتر رہے ہیں۔ گزشتہ چار برسیوں کے مواقع پر انہوں نے بی بی کی یاد میں کبھی کوئی پوسٹر شائع نہیں کرایا۔ شائد اب ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ٹپی اپنے لئے حلقہ انتخاب تلاش کر رہے ہیں ۔ ٹکٹ تو انہیں ہر حال میں ملے گا ،کیونکہ بھائی جان ہی تو ٹکٹوں کی تقسیم کریں گے۔ کسی نے کہا کہ ٹنڈو اللہ یار سے انہیں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ ٹنڈو اللہ یار کیوں ؟ ٹنڈو اللہ یار اس لئے کہ صوبہ سندھ کی اس بہترین زرخیز زرعی زمین والے علاقے میں صدر آصف علی زرداری نے ایک طرح سے اپنی اسٹیٹ بنالی ہے۔ اسی علاقے میں ایک شوگر مل بھی ان کی ملکیت بتائی جاتی ہے۔ ٹنڈو اللہ یار سے ابھی شمشاد قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ وہ ستار بچانی کی اہلیہ ہیں ۔ ستار بچانی کے نام پر شوگر مل ہے۔ کسی نے کہا کہ ٹپی تعلقہ حیدرآباد والی قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑیں گے۔
ٹپی اپنے کسی زبانی حکم کو رد ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ وہ وزیر اعلیٰ سمیت سب سے کہتے ہیں کہ ان کا حکم صرف بھائی جان تبدیل کر سکتے ہیں۔ اویس مظفر عرف ٹپی آصف علی زرداری کو بھائی جان کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر آصف علی کے دودھ شریک بھائی ہیں۔ اویس ٹپی مظفر حسین کے بیٹے ہیں۔ مظفر حسین ،صدرآصف علی زرداری کے والد مرحوم حاکم علی زرداری کے کراچی میں واقع بمبینو سنیما کے منیجر ہوا کرتے تھے۔ حاکم علی اور مظفر کے تعلقات اس قدر گہرے ہوئے کہ ٹپی نواب شاہ میں ان کے ہی گھر رہا کرتے تھے۔
آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے کے بعد ٹپی سندھ میں ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ کیا مجال ہے کہ کوئی سرکاری افسر ان کے حکم کو تسلیم نہ کرے۔
ان کے بااعتماد آلہ کار محمد علی شیخ کے ایک ٹیلی فون پر بڑے افسران کے تبادلے ہونے لگے۔ کئی اضلاع میں ڈپٹی کمشنر لگائے گئے۔ جب بھی دفاتر میں معلوم کیا گیا کہ ڈپٹی کمشنر کیوں تبدیل ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ٹپی نے تبدیل کراکے اپنا آدمی لگا دیا۔ ڈپٹی کمشنر سے قبل انہوں نے کئی اضلاع میں ای ڈی او ریوینو لگوائے ۔
ٹپی کو ای ڈی او ریونیو یا ڈپٹی کمشنر کے علاوہ کسی اور عہدے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ صرف ای ڈی او ریونیو جو اب، ڈپٹی کمشنر قرار پائے ہیں، کے عہدے پر ایسے افراد کو مقرر کراتے ہیں جو ان کی کسی بات سے انکار نہ کرے۔ ایک نہیں ، درجنوں ایسے افراد موجود ہیں جو اس عہدے پر کسی بھی قیمت پر نوکری کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، سو ٹپی اور ان کے اہل کاروں کے لئے معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔ ان کے مقرر کردہ افسران محکمہ ریونیو میں ان کے معاملات دیکھتے ہیں۔ ان کی پسند کی سرکاری زمین تلاش کرتے ہیں ۔ سرکاری زمینوں کے بارے میں ریکارڈ ان لوگوں کی دسترس میں ہوتا ہے۔
زیادہ حیران کن بات جو درخواست گزار نے عدالت میں کہی، یہ ہے کہ اسٹیٹ بنک کی جعلی مہریں استعمال ہو رہی ہیں ۔ یہ مہریں سرکاری خزانے میں رقم کی ادائیگی کے چالان پر لگائی جاتی ہیں ۔ سرکاری خزانے میں رقم کے جمع ہونے کی تصدیق کرنا اس محکمے کی ذمہ داری ہے جو ببلی فیم شاہ زر شمعون کے ماتحت ہے۔ شاہ زر شمعون ببلی فیم کیوں کہلاتے ہیں؟ ببلی حیدرآباد کے بازار کی ایک عورت ہے، جو شاہ زر شمعون جب میر پور خاص میں ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے، مجرہ کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔ وہاں گولی چل گئی تھی اور ببلی بھی زخمی ہو گئی تھی۔ اس قصہ کے بعد سے شاہ زر شمعون کے خلاف ایسی کارروائیاں ہوئیں کہ وہ دوبارہ ملازمت پر بحال ہوئے اور صوبے کے اعلیٰ© عہدے تک پہنچ گئے۔
چراغ ہنگورہ بھی اسی مقدمے میں ملوث پائے گئے تھے۔ وہ اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہیں یہ ملازمت پیر پگارو کے خلیفہ عاقل ہنگورو کا بیٹا ہونے کے ناتے جام صادق علی دور میں دی گئی تھی۔ ملازمت تو ٹپی کو بھی دلائی گئی تھی اور براہ راست اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کرادیا گیا تھا۔ یہ دور وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کی وزارت اعلیٰ کا تھا۔ دنیا جس ملازمت کے لئے امتحان سے گزرتی، ہے ان وڈیروں اور زمینداروں نے اسے ایک مذاق بنا دیا۔ اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، ٹیچر، مختارکار، وغیرہ کے عہدوں پراہلیت جانچے بغیر لوگوں کی جس بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئی تھیں یا ہیں، اس کے سبب تو صوبہ سندھ مسائل کے گرداب میںپھنسا ہوا ہے۔ نااہل لوگوں کے غلط اور غیر قانونی فیصلوں کے اثرات نہ جانے کب تک بھگتنا پڑیں گے۔
ٹپی کو زمین سے محبت اسی دور سے شروع ہوئی۔ وہ اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت میں کراچی میں زمین کے خرد برد میں ملوث پائے گئے۔ مقدمہ بنا۔ وہ عدالت سے مفرور رہے، لیکن ان کے خلاف مقدمہ موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے قلم سے ختم کردیا گیا۔ جب ان کے بھائی جان صدر بنے تو پھر انہیں زمینوں کا پڑا چسکا یاد آیا اور انہوں نے چوپٹ راج، اندھیر نگری تماش گاہ میں اودھم مچا دیا۔ اس اودھم مچانے میں محمد علی شیخ تو ان کے فرنٹ مین ہیں ہی، بورڈ آف ریونیو کے ملازمین یار محمد بوزدار، حماد چا چڑ اور آفتاب پٹھان کے نام بھی سپریم کورٹ کے سامنے لئے گئے ہیں۔ ،محمد علی شیخ ، تاج محمد شیخ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ تاج محمد شیخ الیکشن ہارتے اور جیتتے رہے ہیں۔ پیسے کی ان کے پاس کمی نہیں ہے۔ زرعی اراضی کے علاوہ درجنوں پٹرول پمپ ان کی ملکیت قرار دئے جاتے ہیں۔ ٭