اسلام میں خواتین کے حقوق کا فلسفہ 

        اسلام میں خواتین کے حقوق کا فلسفہ 
        اسلام میں خواتین کے حقوق کا فلسفہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  مُحسنِؐ انسانیت، فخرِ موجودات، سرورِ کائنات، پیغمبرآخرالزمان، ہادیئ انس و جاں، حامی بے کساں، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سب سے بڑا احسان تو عورتوں پر یہی ہے کہ ہم آپؐ کی بدولت اس جہانِ رنگ و بو میں زندہ ہیں ……!

مردوں سے زیادہ تعداد میں، زیادہ صحت مندی کے ساتھ زندہ ہیں۔ نہایت وقار کے ساتھ، پورے احترام کے ساتھ زندہ ہیں۔ ورنہ ماضیئ بعید پر نظر دوڑائیں تو، دورِجاہلیت میں لڑکیاں زندہ درگور ملیں گی……!

اُس زمانے میں لڑکی کی پیدائش ہی سب سے بڑا جرم تھا۔ پیدا ہوتے ہی بچی ماں سے چھین لی جاتی، اُسے زندہ درگور کردیا جاتا اور زمین میں گاڑتے وقت اگر وہ معصوم، ملتجیانہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھتی بھی تو ہرگز رحم نہ کھایا جاتا۔ سنگدل مرد ہی صنف نازک کا قاتل ہوتا۔ یہ آنحضوؐر کی تشریف آوری سے پہلے کے رُوح فرسا حالات تھے۔ 

؎جب آپ آئے تو ایمان وہ بھی لے آئے 

وہ جن کے ذہن میں سنگ و صنم کی خوشبو تھی 

آپؐ نے ارشاد فرمایا: 

”جوشخص چاہتا ہے کہ اُس کی روزی کشادہ ہو اور اُس کی عمر دراز ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ صلہئ رحمی کرے۔“ (حدیث بخاری شریف) 

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: 

”جس شخص نے بالغ ہونے تک دو لڑکیوں کی پرورش کی قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے۔“ اور آنحضورؐ نے ”اس طرح“ کی وضاحت میں اپنی دو انگلیاں ملا کے دکھائیں۔ 

لڑکی کی پیدائش کو برا نہ سمجھا جائے اس سلسلے میں ایک جگہ ارشاد فرمایا: 

”جس شخص کے دو لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اُن کی اچھی تعلیم و تربیت کرے اور پھر اچھی جگہ شادی کردے تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔“ 

غرض آپؐ نے لڑکیوں کا جینا ممکن بنایا۔ اُنہیں باعزت مقام عطا کیا، بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک کے مدارج مقرر کرکے عورت کو درجہ بدرجہ احترام دیا، بیٹی، بہن، بیوی، ماں کے روپ میں، سب سے زیادہ تقدس ماں کو بخشا۔ 

کسی نے آپؐ سے سوال کیا: میری بھلائی اور حُسنِ معاملہ کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ 

آپ نے فرمایا: تیری ماں!

اُس کے بعد؟ 

فرمایا: تیری ماں!

اُس نے پھر پوچھا: اُس کے بعد؟

آپؐ نے فرمایا: تیری ماں!

اُس نے پھر پوچھا: اُس کے بعد؟

فرمایا: ”تیرا باپ“ 

گویا ماں کو باپ پر تین گنا فوقیت دی اور پھر ایک اور مقام پر یہ کہہ کر تو حد ہی ختم کردی کہ 

”ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔“

عورت کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی؟

ایسے ہی کتنے احسانات عظیم ہیں جو آنحضورؐ نے عورتوں پر کیے۔ 

آنحضرتؐ نے بیٹی کی ولادت کو زحمت کہنے والوں کو باربار یہ باور کروایا کہ لڑکی زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے اس کے بارے میں ایک واقعہ یوں بیان کیا گیا کہ حضورؐ نے ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صحابہؓ سے فرمایا کہ دیکھو اس گھر پر خدا کی رحمت کا نزول ہورہا ہے۔ صحابہؓ نے حضوراکرمؐ سے پوچھا کہ حضورؐ ایسا کیا ہے؟ 

تو حضورؐ نے فرمایا: ابھی ابھی اُس گھر میں بیٹی کی ولادت ہوئی ہے۔ 

عورت کے حوالے سے آپ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار یوں بھی کیا۔ 

مجھے تین چیزیں پسند ہیں: 

نماز

خوشبو

عورت

آج کے دور میں جبکہ ہر ابوالہوس نے حسن پرستی شعار کررکھی ہے، آنحضوؐر کی یہ ترتیب ہی یکسر اُلٹ کے رکھ دی ہے۔ 

بیویوں کے متعلق حضورؐ نے فرمایا: 

”جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور جو اپنے اہل و عیال پر سب سے زیادہ مہربان ہو، وہی ایمان میں بھی سب سے زیادہ کامل ہے۔“ 

نبی کریمؐ نے فرمایا: 

”اے لوگو! اللہ کی باندیوں (یعنی اپنی بیویوں) کو مت مارو۔“ 

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: 

”عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ ڈالو گے۔ پس اس کے ساتھ نرمی اختیار کرو گے تو اچھی زندگی گزرے گی۔“ 

صحیح مسلم میں ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں آپؐنے فرمایا: 

”لوگو سنو! عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو اگر وہ تمہارا کہنا مانیں تو ان کو ستانے کے لیے راستہ مت تلاش کرو، سنو! کچھ حقوق تمہاری بیویوں کے تم پر ہیں اور کچھ تمہارے حقوق اُن پر ہیں۔ تمہارا حق اُن پر یہ ہے کہ وہ تمہارے فرش کو ایسے لوگوں سے نہ روند ڈالیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ سنو! اور اُن کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اُن کو کھانا اور کپڑا دو۔ 

اس کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ 

علامہ اقبال نے فرمایا:

”وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“

اسلامی تعلیمات سے مستفید فلاسفر اور سکالرز کے علاوہ بھی دنیا جہان کے بہترین اعلیٰ افکار رکھنے والے لوگوں نے کائنات کی خوبصورتی میں عورت کی خوبصورتی کو اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔ یہ ایک دوچار کی بات نہیں بلکہ عورت کے ذکر اور حوالے کے بغیر ہمارے زندگی کے معمولات ادھورے رہ جاتے ہیں اور اس کا احساس ہمہ وقت رہتا ہے غرض عورت ہمارے اپنے باطنی اور ظاہری حُسن کی نہ نظر آنے والی علامت ہے۔ جسے کسی بھی صورت میں اپنے آپ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بہ الفاظ دیگر عورت کا وجود ہمارے وجود کے ہونے کی دلیل ہے، یہی دلیل ہماری زندگی کے اُتارچڑھاؤ میں ہمیں بہتر سے بہتر کارکردگی کرنے کی تحریک بخشتی ہے اور ہم اسی کی بدولت ترقی و ترویج کے مدارج طے کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرلیتے ہیں۔ 

ہمارے جذبے، جذبات، خیالات، عورت ہی کے مختلف انداز کے مرہونِ منّت ہیں اور رہے ہیں اور جب تک یہ کائنات موجود ہے اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا کمی کے امکانات مفقود ہیں۔ 

فنونِ لطیفہ سے لے کر سائنسی علوم تک اور کاروبارِ زندگی کے باقی معمولات تک عورت اپنا کردار بخوبی نبھانے کی اہل ہے اور اس میں لچک پیدا کرنے کی عادی نہیں جس کی وجہ سے آج کی عورت اس مقام کو جو دین اسلام نے عورت کو نوازا ہے اُس کی حفاظت اور توقیر کی ذمہ داری قبول کرنے کی طرف راغب ہوتی جارہی ہے اور اپنی فطری مجبوریوں کے باوجود ترقیاتی منازل میں مردوں کے معاون ہے۔ 

زندگی کا فلسفہ مردوزن دونوں سے مرصع ہے اور بیشتر فلسفیانہ خیالات انسانی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی لیے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں جس سے آپ احباب بھی روشناس ہیں یہی عرض کروں گی کہ اسلام جو خواتین کے حقوق کا نہایت اعلیٰ ترجمان ہے باقی مذاہب نے بھی اسی سے روشنی مستعار لے کر خواتین کے حقوق کو اہمیت سے ہمکنار کیا ہے اور اپنی زندگیوں کو خوشگواریت سے منسلک کیا ہے اور یہ سب آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -