عالمی ماد ر علمی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک دن
پاکستان سے باہربسنے و الے ملک میں جاری غیر یقینی صورت حال سے بہت دلبرداشتہ ہیں اور خصوصاً سوشل میڈیا اینکرز ان کے لیے مزید سنسنی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنیوالوں کو سن سن کر یہ ہر روز کسی انقلاب کی راہ ہموار ہوتی محسوس کرتے ہیں۔سیاسی عدم استحکام نے عرصہ دراز سے ایک کھینچا تانی کا ماحول بنایا ہوا ہے، جس کا بازار ایک مرتبہ پھر گرم ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے سفر پر رواں دواں احباب کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے جو یہاں موجود ہر پاکستانی کے ہیں۔
عمران خان کی وجہ سے اس بار چانسلر کے الیکشن کا کافی شہرہ ہے اوریہاں بسنے والے پاکستانی بھی اس کے لیے کافی پرجوش ہیں۔ اس بار اس الیکشن کی گونج پورے عالمی میڈیا پر بھی سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی وابستگی اور مخالفت سے ہٹ کر ایک پاکستانی کا دنیا بھر کے اس اہم ترین علمی مرکز کے چانسلر کے انتخابات میں نام آ جانا بلاشبہ اعزاز کی بات ہے جس کی سکروٹنی کا عمل آج کل جاری و ساری ہے جس میں یہاں کی سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججزشامل ہوتے ہیں۔ عمران خان تمام قواعد و ضوابط پر پورا اترتے ہیں اور اگر 6 شارٹ لسٹ کئے گئے لوگوں میں ان کا نام آ گیا تو پھر ان کا چانسلر بننا یقینی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے اس کے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں اور کردار کشی مہم کو بھی یہاں مقیم پاکستانی اور برٹش حیرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
آکسفورڈ ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل شہر ہے جس کے اطراف علم و تحقیق کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے جو متلاشیان جستجو کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی 36 مختلف سکولز پر مشتمل ہے جس کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے اور ہر سکول دراصل اس موضوع پر ایک الگ یونیورسٹی ہے۔یہ تمام سکولز دراصل پہلے قبائل تھے جن کے نشانات آج بھی ہر سکول کے داخلی دروازے کے اوپر آویزاں ہیں۔یہ قبیلے ان کی مذہبی عبادت گاہیں اور دینی تعلیم کے ادارے تھے جنھیں وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جدید علمی مراکز میں بدل دیا گیاجو اب تاریخ کا آئینہ ہیں۔ دنیا بھر سے 34 ہزار طلبہ سالانہ کی بنیاد پر میرٹ کے کڑے مراحل سے گزر کر داخلہ حاصل کرتے ہیں جن میں پاکستانی طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ بھارت کے طلبہ کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ایک اور بہت حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ آکسفورڈ میں رہنے والے نوجوان یہاں داخلہ لینا پسند نہیں کرتے کہ یہاں کی روایت کے مطابق ان کی خواہش گھر سے دور جا کر پڑھنے کی ہے کہ طالب علمی کے زمانے کو بھی یہا ں کی نسل ایک خاص انداز سے گزارنا چاہتی ہے۔ پچھلے دنوں یہاں زیر تعلیم طلبہ نے اسرائیل کی بربریت کے خلاف 8 ہفتے احتجاج کیا اور بالآخر انھیں پولیس کی مدد سے یہاں سے ہٹایا گیا۔ آکسفورڈ کے طلبہ کی طرف سے کیا جانے والا یہ طویل دورانیے کا احتجاج تھا۔ اس جگہ کو اب حفاظتی باڑ لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایریا کے اندرعمومی گاڑیوں کو لانے کی اجازت نہیں ہے اور یہاں گھومنے کے لیے خاص بسوں،سائیکلوں یا پھر پیدل مارچ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پورے ایریا میں کہیں پولیس کی گاڑیاں دندناتی دکھائی نہیں دیں کہ قانون یہاں لوگوں کے مزاج اور شعور میں سرائیت کیا ہوا ہے اور ہر کوئی اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا سوچتا بھی نہیں۔یہاں کے گھروں کی قیمت اس مرکز علم کی وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ لوگ یہاں رہنا بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنی آمدن کے لیے بہت سے سورس بھی جنریٹ کئے ہوئے ہیں اور طلبہ سے حاصل ہونے والی آمدن کا بیشتر حصہ علمی مدار کو جدید تر بنانے میں خرچ ہوتا ہے جس کے سبب آمدن و اخراجات میں ایک توازن کارفرما ہے۔ بے نظیر بھٹو آکسفورڈ یونین کی منتخب ہونے والی واحد خاتون صدر تھیں۔ملالہ یوسفزئی کو بھی اسی سکول نے سپانسر کیا۔ا س کے علاوہ آرمی پبلک سکول کے سانحے میں بچ جانے والے احمد نواز بٹ نے بھی یہاں میرٹ پر داخلہ لیا اور یہاں کی یونین کے صدر بھی بنے،ایک طالب علم جابر علی کے بارے میں بھی علم ہوا جو اپنی غیر معمولی ذہانت کے سبب تمام میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود رقم کا انتظام نہ ہونے کے سبب داخلہ نہ لے سکا،جس کے اخراجات بعد ازاں جہانگیر ترین نے اٹھائے جو بہت قابل ستائش ہے۔ ایک اور اعزاز کی بات ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اسرار خان کاکڑ اس وقت آکسفورڈ یونین کے صدر ہیں۔یہاں سکول آف میوزک میں ایک ڈیپارٹمنٹ استاد نصرت فتح علی خان کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے جس پر حیرت اس بات کی ہے کہ اس کے لیے ایک بھرپور تحریک بھارت کے سٹوڈنٹس کی طرف سے چلائی گئی۔ راحت فتح علی خان کو بھی میوزک کی اعزازی ڈگری دی گئی ہے جن کو یہاں پرفارم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
آکسفورڈ ہاؤس آف یونین بھی ایک باکمال تنظیم ہے جس کی سرگرمیوں کا محور بھی علم سے جڑا ہوا ہے،جہاں عالمی لیڈرز کو گفتگو کے لیے بلایا جا تا ہے۔ یہاں ایک دوسرے کے انتہائی مخالف لیڈرز بھی ڈائیلاگ کی شکل میں اپنا اپنا موقف پیش کرتے ہیں جس پر یہاں موجود دنیا بھر کے نمائندہ طلبہ ان سے سوالات بھی کرتے ہیں۔ یہاں کی سٹوڈنٹس یونین عالمی مباحثے کو فروغ دینے میں سرگرم ہے۔
مختلف سکولز کا وزٹ کرتے ہوئے ایک جگہ کورین ٹی وی کے نمائندے ڈاکومنٹری بنانے میں مصروف تھے اور مجھے بھی انہوں نے روک لیا اور کچھ سوالات کئے جن میں سے پہلا یہی تھا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے،پاکستان بتانے پر پہلا سوال یہ تھا کہ آپ یقینا سیاستدان ہوں گے جس پر میں مسکرا دیا۔
میں سوچ رہا تھا کہ یہاں 36قبائل کے مذہبی مدارس پر مشتمل آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کا قابل فخر مرکز علم بن گیا اور ہمارے پاس تو اس سے کہیں زیادہ بڑے ہزاروں دینی مدارس ہیں جن کا بجٹ شائد آکسفورڈ سے بھی زیادہ ہو، لیکن یہاں دنیا ئے علم و تحقیق پر حکومت کرنیوالے لیڈر تیار ہو رہے ہیں اور ہمارے دینی مراکز علم سے مسلکی مبلغ۔