سپریم کورٹ کا فیصلہ: قوم کو مبارک ہو

   سپریم کورٹ کا فیصلہ: قوم کو مبارک ہو
   سپریم کورٹ کا فیصلہ: قوم کو مبارک ہو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آرٹیکل63اے نظرثانی کیس کا فیصلہ مبارک ہو۔طے پا گیا ہے کہ پارلیمان سپریم ہے،عوام کی رائے ہر شے پر مقدم ہو گی۔عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمان مقتدر ادارہ ہو گی،ویسے جمہوری معاشروں میں عوام کی رائے ہی مقدم ہوتی ہے، ہم جمہوری ملک ہیں، پاکستان کی تخلیق جمہوری انداز میں ہوئی تھی، محمد علی جناحؒ نے ہندی مسلمانوں کا حق نمائندگی ثابت کر کے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا۔انہوں نے ہندو اکثریت کے مقابلے میں جمہوری اصول کے مطابق علیحدہ نمائندگی کا حق منوایا۔پھر مسلمانوں میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے مسلم لیگ کے لئے حق ِ نمائندگی حاصل کیا۔انتخابات کے ذریعے، ووٹ کی طاقت سے یہ ثابت کیا کہ مسلم لیگ ہی ہندی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اِس طرح پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

اِس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان پر انگریزوں کی قائم کردہ، تیار کردہ بیورو کریسی کا غلبہ رہا۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی شاطر بیورو کریسی پاکستان کے معاملات میں دخیل ہو گئی تھی انہوں نے اپنے اختیارات سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت شروع کر دی تھی،1958ء کا مارشل لاء، بیورو کریسی کی ہوس اقتدار کا نتیجہ تھا،جس کے باعث جنرل ایوب خان سیاست میں فیصلہ کن عامل کے طور پر ابھرے۔میجر جنرل سکندر مرزا نے سیاست میں گند ڈالا۔فوج کو سیاست میں دخیل بنایا۔ پھر فوج نے خود ہی معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ اس کے بعد فوج غالب رہی۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی جرنیل سیاست میں حرفِ آخر کے طور پر مانے جاتے رہے ہیں، لیکن ہر مارشل لاء کے بعد قوم ہر دفعہ جمہوریت کی طرف ہی پلٹی ہے۔ جنرل ایوب خان بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے جمہوری اداروں کے قیام کا ڈرامہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے ذریعے اپنے دورِ حکمرانی کو جواز بخشنے کی کاوشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں انہوں نے1956ء کا آئین پامال کیا پھر1962ء کا دستور بنانے پر مجبور ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ1969ء میں جب انہیں سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اپنے ہی دستور کے برعکس، اقتدار سپیکر اسمبلی کو سپرد کرنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا جاتا  ہے کہ یحییٰ خان نے خود ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے محلاتی سازشوں کا سہارا لیا، جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا،لیکن دستور 1973ء پر کلہاڑا نہیں چلایا۔انتخابات کرائے،غیر جماعتی سیاست کے ذریعے اپنے من پسند سیاستدانوں کی ایک نسل تیار کی۔جنرل مشرف نے بھی ایسا ہی کیا، دستور 1973ء قائم رکھا،اپنی پارٹی بنائی،اس کے بعد ہمارے جرنیلوں نے عدلیہ  و بیورو کریسی کے ساتھ مل کر عمران خان کے پتلے میں جان ڈالی اسے عظیم الشان لیڈر بنایا،جو آج ملک و قوم اور ریاست کے لئے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ اس کی پھیلائی ہوئی منفی سیاست، ہماری معاشرت میں سرایت کر چکی ہے، ہر طرف تقسیم و تفریق نظر آ رہی ہے۔ قوم عوامی حق نمائندگی کے مطالبے کے ساتھ کھڑی ہے، منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد قوم نے سُکھ کا سانس لیا ہے اس کی ایک جھلک سٹاک مارکیٹ کے مثبت رجحان اور تاریخی بلندی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ مارکیٹ انڈکس980 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 82947 پر بند ہوا۔ مارکیٹ کا یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ فیصلے کو مثبت انداز میں کیا گیا ہے۔

قوم نے ہمیشہ مثبت ری ایکشن ظاہر کیا ہے۔ جب بھی قوم کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا قوم نے ری ایکشن شو کیا۔فوجی آمر،اپنی طاقت کے باوجود جمہوری حکومت قائم کرنے پر مجبور رہے۔1973ء کا دستور قوم کالائحہ عمل بن چکا ہے یہ دستور فرد اور ریاست کے مابین حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے،ریاست پاکستان کے تمام ادارے، عدلیہ، انتظامیہ وغیرہ سب دستور کے تحت کام کرنے کے پابند ہیں دستور ایک بالادست دستاویز ہے۔ہمارے ہی دستور کی بالادستی کی آڑ میں پارلیمان کی وقعت کم کرنے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں، کبھی کبھی تو نام نہاد سیاستدان بھی اپنے ذاتی  و گروہی مفادات کے حصول کے لئے آئین کی بالادستی کی آڑ میں پارلیمان کی وقعت کم کرنے والوں کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔

یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے۔ دستور مخلوق ہے اسے تخلیق کیا گیا ہے اسے پارلیمان نے ترتیب دیا ہے گویا پارلیمان خالق ہے دستور کی۔ پھر تمام ادارے اسی دستور کے تحت تخلیق کیے گئے،اس طرح ادارے مخلوق ہیں اور دستور ان کا خالق ہے خالق سپریم ہے اپنی مخلوق کے لئے۔ تمام ادارے اپنے خالق دستور کے پابند ہیں،اسی طرح دستور بحیثیت مخلوق، اپنی خالق پارلیمان کے تحت ہے، جس پارلیمان نے اسے جنم دیا ہے،تخلیق کیا ہے وہ اس میں جب چاہے ترمیم و تنسیخ بھی کر سکتی ہے حتمی بالادستی پارلیمان کو حاصل ہے،جو240 ملین عوام کی نمائندہ باڈی ہے اسے چاروں صوبوں کے نمائندہ افراد کی حمایت بھی حاصل ہے۔پارلیمان میں بیٹھے نمائندوں کے بارے میں جو کچھ مرضی کہا جائے لیکن ایک بات سب پر حاوی ہے کہ وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں عوامی آدرشوں اور امیدوں کے مرکز اور ترجمان ہیں۔ پاکستان کے عوام بارہا یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ جمہوری طرزِ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔پارلیمانی نظام جمہوریت ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں تمام صوبے اکٹھے ہیں، جڑے ہوئے ہیں اس پارلیمان نے1973ء کا دستور، متفقہ دستور تشکیل دیا،جس پر نظم حکومت و ریاست استوار ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اس فیصلے سے تحریک انصاف کے حواریوں پر سکوت مرگ طاری ہونا لازمی ہے عمران خان کو قوم پر مسلط کرنے اور دیگر قومی سیاست دانوں کو منظر سے ہٹانے کے لئے ریاست اور اداروں نے مل جل کر جو غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی حرکات کی تھیں اس سے ہماری سیاست، معاشرت اور معیشت میں ابتری پھیلی تھی، ریاستی اداروں میں تفریق اور تقسیم پیدا ہوئی۔ سیاست میں نفرت اور گالم گلوچ کا کلچر فروغ پایا۔ معاشرت میں تقسیم و تفریق نے زور پڑا، اداروں میں تقسیم ہوئی، ریاست کمزور ہوئی،ویسے ریاست ابھی تک کمزور ہی نظر آ رہی ہے۔ 9مئی کے مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔عمران خان سزا یافتہ مجرم کے طور پر اڈیالہ جیل میں پھنکار رہے ہیں۔ للکار رہے ہیں،انہیں نجانے کیوں اپنی پارٹی چلانے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے وہ ابھی تک حکومت و ریاست کے خلاف برسر عمل ہیں اور ایسا کرنے کے لئے انہیں سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہیں ملک جب بھی معاشی طور پر یا سفارتی سطح پر بہتری کی طرف جانے لگتا ہے تو وہ پھنکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈی چوک دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہیں،کبھی لاہور، کبھی راولپنڈی پر دھاوا بولنے کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ گنڈا پور کو ریاست کیوں اجازت دے رہی ہے کہ وہ کے پی عوام کے پیسے پارٹی اہداف حاصل کرنے پر خرچ کرتے چلے جائیں؟حکومتی اختیارات اور افرادی قوت کو مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت ے خلاف استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کون کر رہا ہے؟

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -