پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی بھرمار کیوں ہے؟

پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی بھرمار کیوں ہے؟
پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی بھرمار کیوں ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے یہ دلچسپ تفصیل سُن لیں۔وہ پارٹیاں جو ECP میں رجسٹرڈ شدہ ہیں اِن کی تعداد 175 ہے۔ 67 پارٹیوں کے نام کے ساتھ پاکستان کا نام جڑا ہوا ہے۔ جیسے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان تحریک استحکام، پاکستان تحریک استقلال پارٹی وغیرہ وغیرہ۔دوپارٹیوں کے سربراہ ریٹائرڈجنرلز ہیں۔ زیادہ پارٹیاں اکیسویں صدی، میں وجود میں آئیں، مذہب سے تعلق رکھنے والی رجسٹرڈ پارٹیاں 27 ہیں، اِن مذہبی پارٹیوں کی اکثریت کا آغاز KPK، پنجاب اور بلوچستان سے ہوا ہے،بلکہ زیادہ کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے،اِن میں سے4 معروف مذہبی جماعتوں کی ابتداء شہروں سے ہوئی ہے، سب سے پُرانی جماعت 1941ء کی جماعت اسلامی ہے اور اس کے بعد 1948ء میں JUPکی ہے، گمنام سی اور بالکل ہی تانگہ پارٹیاں 2010ء کے بعد کی پیداوار ہیں۔ اِن جماعتوں کے سربراہوں کا مکان ہی اِن کی پارٹی کے دفتر کا رجسٹرڈ پتہ بھی ہے۔ تحریک ِ انصاف نظریاتی نام سے دو پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں۔ JUP بھی اسی نام سے دو الگ الگ افراد نے رجسٹرڈ کروائی ہیں۔ 9 پارٹیاں علاقائی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اِن کا ایک آدھ نمائندہ نیشنل اسمبلی میں اپنے ذاتی ووٹ بینک کی وجہ سے منتخب ہو جاتا ہے یا اکثر کو ”طاقتور“حلقے جتوا دیتے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت ”کام“ آئیں۔ آپ اِن سب کے نام جانتے ہیں۔ عرف عام میں اِن کو الیکٹیبلز کہا جاتا ہے۔ ایک سیاسی پارٹی کی سربراہ سندھ کی ایک خاتون ہیں جو مجھے ایک معروف سیاستدان خاتون اور ان کے شوہر کی فرنٹ پرسن لگتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی تانگہ پارٹیوں کی افراط کی کیا وجہ ہے۔کیا یہ ِ قوم کی خدمت کے لئے وجود میں آئیں ہیں؟۔ اِن کا ذاتی Ambition بھی ہو سکتا ہے؟یا سیاست میں سرمایہ کاری کر کے زیادہ سرمایہ کمانا اِن کا مقصد ہوتا ہے؟ یا اپنی تشہیر کرنا مطلوب ہے،یا اپنی ذہنی اُفتاد Maglomania کی تسکین کے لئے سیاسی پارٹی بناتے ہیں۔ پاکستان میں اگر بندے کو پیٹ بھر روٹی ملتی ہو اور اُسے کچھ  لوگ معتبر سمجھتے ہوں تو محلے کے لوگ اس کو شغلاً بھی لیڈر بنا دیتے ہیں۔ پھر بندے کی بھی مت ماری جاتی ہے اور وہ لیڈری کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔بھارت کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔ وہاں صرف 5/6 قومی سطح کی سیاسی پارٹیاں ہیں اور 57 صوبائی سطح پر ہیں لیکن غیر ڑجسٹرڈ پارٹیاں جن کو ہندوستان کا الیکشن کمیشن تسلیم نہیں کرتا، اِن کی تعداد 2000 کے قریب ہے۔یہ پارٹیاں محلے اوردیہات لیول کی زیادہ ہیں، اِن کی تھوڑی بہت اہمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے بطور Feeder پارٹی کی طرح ہوتی ہے۔ ملک کی بڑی پارٹیاں الیکشنزمیں ان علاقائی پارٹیوں کی خدمات حاصل کرنے کے لئے اِن پارٹیوں کے لیڈروں کو کچھ خرچہ پانی دے دیتی ہیں،یہ ہی ان پارٹیوں کی کمائی ہوتی ہے پاکستان میں بھی اگر دیکھا جائے تویہ دھند ا سیاسی پارٹیوں کے الحاق کی صورت میں چلتا رہتا ہے۔  

ْقائد اعظم والی مسلم لیگ نے کئی پارٹیوں کو جنم دیا۔ حتٰی کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ کنونشن گروپ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ پہلی حزبِ مخالف پارٹی ”آزاد پاکستان مسلم لیگ پارٹی بنی جو بعد میں آزاد پاکستان پارٹی بن گئی۔ پاکستان میں نئی سیاسی پارٹیاں جو کسی بڑی پارٹی کے شکم سے پیدا نہیں ہوئیں۔ وہ اکیسویں صدی میں زیادہ بنیں۔ یہ نئی پارٹیاں سوائے PTI کے کوئی نمایاں کام نہیں کر سکیں۔ PTI کو بھی پاکستانی فوج نے پال پوس کر میدان میں اتارا تھا بالکل جیسے پیپلز پارٹی کی آبیاری جنرل یحییٰ خان نے کی تھی یاجس طرح جونیجولیگ کے ٹکڑے کر کے نون لیگ، چٹھہ لیگ اور قاسم لیگ وجود میں آئیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ”ق“ لیگ بنائی۔ نواز شریف بیوپاری آدمی تھا اس نے مال خرچ کیا اور الیکٹیبلزکا مضبوط دھڑا اپنے لئے بنا لیا۔ خود بھی کمائی کی اور اپنے دھڑے والوں کو بھی کھانے کا موقع دیا۔ زرداری اور بے نظیر بھٹو نے بھی پارٹی پر اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مال بھی بنایا اور سندھی وڈیروں اور شاہوں کا مفاد پرست ٹولہ بھی ساتھ ملا لیا۔ MQM ملک کی تیسری سیاسی طاقت بن سکتی تھی، پاکستان کی ابھرتی ہوئی تمام مڈل کلاس ایم کیو ایم کی پیروکار ہو سکتی تھی لیکن اس پارٹی کی شدت پسندی، قتل و غارت گری اور پھر الطاف حسین کی باغیانہ تقریروں نے اس کو ملک گیر بننے نہیں دیا۔ اس پارٹی میں بھی دھڑے بندی ہو گئی۔ پاکستان میں 1980ء کے بعد پیدا ہونے والی نسل نے عمران خان میں مسیحا دیکھا۔ اس کی وجاہت،اس کے رفاحی کام، اس کی بین الاقوامی شہرت سے نوجوان نسل پہلے ہی متاثر ہوچکی تھی کہ فوج نے اس کو بطور Third political force دبوچ لیا۔ نواز شریف اور زرداری کے مالی گھپلوں کو بڑھا چڑھا کر میڈیا میں پیش کیا گیا۔ عمران خان نے پاکستان کے کرپٹ عدالتی نظام کو سمجھے بغیر، نواز شریف اور زرداری کو الٹا لٹکانے کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔فوج تو عمران خان کو ایک سیاسی ہوّے (Bugbear) کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ یہ بھولا بادشاہ سنجیدہ ہی ہو گیا۔ جب طاقتوروں نے دیکھا کہ عمران خان سچ مچ کا وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہا ہے۔راندہ درگاہ ہوگیا۔ عمران خان کبھی بھی اتنی غیر متوقع عوامی مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا تھا،اگر اُس کا متبادل اچھی شہرت کے سیاستدانوں کی حکومت ہوتی۔ 

 نئی سیاسی پارٹیاں 2000ء کے بعد زیادہ بنیں۔ اِن پارٹیوں کے بانی نسبتاً جوان ہیں۔ ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، پُرانی ڈگر پر چلنے والے سیاستدانوں سے متنفر ہیں۔ زیادہ تر متوسط اور تعلیم یافتہ طبقے سے ہیں لیکن پچھلے 40/45 سالوں میں سیاست کو نہایت مہنگا کام بنا دیا گیا ہے، اَب تو اسمبلی کی ایک سیٹ دیانتداری سے بھی حاصل کرنے کے لئے دو تین کروڑ کا خرچہ درکار ہے۔ لاہور شہر میں 13 نئی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو میں بلا واسطہ جانتا ہوں۔ سب کے سب کچھ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں،چونکہ اپنی سیاسی پارٹی خود بناتے ہیں،اس لئے ابتدائی سرمایہ بھی اپنی جیب سے خرچ کرتے ہیں اسی لئے پارٹی کے سربراہ بھی خود بنتے ہیں۔ اِن پارٹیوں کا چونکا دینے والا نظریہ وغیرہ نہیں ہوتا۔ عوام کا نام البتہ ضرور استعمال کرتے ہیں۔ آج کا دور Presentation کا دور ہے۔آپ جب تک اپنے خیال اور سیاسی وچار کو خوبصورت الفاظ میں پیش نہیں کرو گے، کوئی آپ کے پیچھے نہیں آئے گا۔ نئی سیاسی پارٹی کو کامیاب ہونے کے لئے ڈھیر سارا سرمایہ ”طاقتورں“ کی آشیرباد حاصل ہو اور اُس پارٹی کو اپنا ”سودا“ جسے منشور کہتے ہیں، فروخت کرنے کا سلیقہ آتا ہو، تب کامیابی کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ 

جنرل ضیاء الحق نے MNA & MPAs کو ڈویلپمنٹ فنڈز کی شکل میں رشوت دینے کا طریقہ شروع کیا جس کے لالچ نے سیاست میں نوواردوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ کیا۔ خاندان کے خاندان سیاسی مال پر پلنے شروع ہو گئے جس کو ”ووٹ بینک“ کا نام دیا گیا۔ ووٹ بینکوں نے (ELECTABLES)  کو وجود دیا اور یوں پاکستان کی سیاست کا بیڑہ غرق ہوا۔ ہم نام تو لیتے ہیں 24 کروڑ بے آسرا غریب عوام کا، دراصل اِن میں  ووٹر 8-9 کروڑ سے زیادہ نہیں ہوں گے، کیونکہ پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں غیر ووٹر زکی تعداد زیادہ ہوتی جائے گی۔اصل ووٹ دینے والے 4-5 کروڑ سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اِن ووٹرز کو پیسے والی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے الیکٹیبلز کے ذریعے قابو کرتی رہیں گی۔ طاقتور حلقے جن میں سرمایہ دار، بیرونی ممالک اور کالے دھندے کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، وہ بھی اپنا ”لُچ“ تلتے رہیں گے۔ ہمارے دانشور جمہوریت کا نام الاپتے رہیں گے۔اللہ اللہ خیر صلا۔    

   

مزید :

رائے -کالم -