جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر80
’’یہ تو میں نہیں جانتی وہ کہاں ملے گا؟ پرنتو اس کٹھن سمے میں وہی تمری سہائتا کر سکتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن صائمہ کو اب میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا کیا پتا کب وہ حرام کا نطفہ دوبارہ آجائے؟‘‘ غصے سے میرا برا حال تھا
’’تم اس کی چنتا نہ کرو، جب وہ تمری پتنی کے پاس آئے گا میں تمہیں کھبر کر دوں گی‘‘ رادھا نے مجھے تسلی دی۔
’’ٹھیک ہے میں کل ہی اسے تلاش کرتا ہوں‘‘ رادھا کی بات سے مجھے اطمینان ہوگیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہم کافی دیر تک پروگرام بناتے رہے اس کے بعد رادھا نے جانے کی اجازت چاہی۔
’’میرے جاپ کا سمے ہوگیا ہے موہن! میں جاتی ہوں کل اسی سمے آؤں گی‘‘ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں واپس کمرے میں آیا تو صائمہ سوئی ہوئی تھی۔ میں کافی دیر اس کے حسین چہرے کو دیکھتا رہا یہ سب کچھ میری نادانیوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہ میں رادھا کے ساتھ تعلقات رکھتا نہ یہ سب کچھ ہوتا۔ میں دیر تک سوچتا رہا ،سر میں شدید درد ہونے لگا۔ سگریٹ سلگا کر میں بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ کیا ملنگ اس سلسلے میں میری مدد کرے گا۔۔۔؟ رادھا کے بقول صائمہ کے جسم پر کسی اور نے قبضہ جما لیا تھا۔ لیکن صائمہ تو نہایت پاکباز عورت ہے پھر۔۔۔؟ کسی بات کی سمجھ تو نہ آئی البتہ سرکار درد بہت بڑھ گیا۔ میں نے دراز سے خواب آور دوا نکال کر کھائی، تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آگئی۔ کسی کے جھنجھوڑنے سے میری آنکھ کھلی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بابا اٹھیں سکول کا ٹائم ہوگیا ہے ۔ میں نے ماما کو جگایا لیکن وہ بھی نہیں جاگیں‘‘ احد مجھے جھنجھوڑ رہا تھا
میں نے کلاک پر نظر ڈالی آٹھ بج رہے تھے ۔ ’’اوہو۔۔۔اٹھ بج گئے آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ میں آپ کے لئے ناشتہ بناتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ماما کو کیا ہوا ہے؟‘‘ احد کو حیرت تھی کہ آج مایا کیو سو رہی ہیں؟
’’رات ماما کو ٹمپریچر ہوگیا تھا اسی وجہ سے ابھی تک سو رہی ہیں۔ آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔
’’مومنہ کو جگا دوں‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں اسے بھی جگا دو میں ناشتہ تیار کرتا ہوں‘‘ میں نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ واپس آیا تو مومنہ صائمہ کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے ایک نظر سوئی ہوئی صائمہ کو دیکھا۔ میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس کا گلاب جیسا شگفتہ چہرہ کملا گیا تھا۔ چہرے پر زردی کھنڈ گئی تھی۔ مومنہ پیار سے اپنی ماں کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بھاگ کر میرے پاس آگئی۔’’ماما کیوں سو رہی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’رات ماما کو بخار ہوگیا تھا اس لئے سو رہی ہیں آپ جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو سکول کا ٹائم ہوگیا ہے‘‘ میں نے اسے اٹھا کر باتھ روم کا رخ کیا۔
’’میں نہیں جاؤں گی‘‘ اس نے ضد کی۔
’’اچھا ٹھیک ہے ناشتہ کرلو پھر کھیلنا‘‘ میں نے یہی بہتر سمجھا کہ آج بچوں کو چھٹی کروا دی جائے۔ اس طرح صائمہ کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ ناشتہ کرنے کے بعد بچے تو لان میں جا کر کھیلنے لگے جبکہ میں بیڈ پر بیٹھ کر سوچوں میں غرق ہوگیا۔
’’ارے۔۔۔آٹھ بج گئے۔۔۔فاروق! آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں دیکھیں بچوں کے سکول کا حرج ہوگیا‘‘صائمہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ میرے پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔
’’تم جاگ گئیں؟ میں نے اس لئے نہیں جگایا کہ تمہاری طبیعت خراب تھی‘‘ میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا۔
’’میری طبیعت کو کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
’’رات تمہیں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ورنہ تو تم علی الصبح جاگنے کی عادی ہو‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’بچوں کی سکول سے بلا وجہ چھٹی ہوگئی‘‘ اس نے افسوس کیا۔
’’پھر کیا ہوا ایک دن نہ جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آج میں نے بھی چھٹی لی ہوئی ہے جلدی سے ناشتہ تیار کر لو پھر پروفیسر انکل کی طرف چلیں گے‘‘ میں نے پیار سے اس کی طرف دیکھ۔
’’آپ نے کیوں چھٹی لی ہے؟‘‘ اسنے مجھے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھا۔
’’دل تمہارے بنا اداس ہو جاتا ہے اس لئے سوچ رہا ہوں گھر میں ہی بینک کھول لوں تاکہ تم سارا وقت میری آنکھوں کے سامنے رہ سکو۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر ایسی بات کہی تاکہ معلوم ہو سکے اس وقت صائمہ کی کیفیت کیا ہے؟
’’آپ دن بدن نکمے ہوتے جا رہے ہیں چلیں ناشتہ کرکے جائیں اپنے کام پر‘‘ اس کے چہرے پر وہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی جو اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ میں اس کی حالت سے مطمئن ہوگیا۔
’’محترمہ ! آپ کے اس خادم نے بچوں کو ناشتہ کروا دیا ہے اور خود بھی چائے پی لی اگر آپ کا حکم ہو تو آپ کے لیے بھی ناشتہ تیار کردیا جائے‘‘ میرے مزاحیہ انداز پر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مجھے اسکی طرف سے اطمینان ہوا تو میں نے سوچا ملنگ کو کہاں تلاش کیا جائے؟ اس درویش کا کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں کہ میں سیدھا وہیں چلا جاتا۔ گھر سے نکل کر گاڑی بے مقصد سڑکوں پر گھماتا رہا۔ دو ڈھائی گھنٹے کی شدید محنت کے بعد بھی ملنگ کو نہ پا سکا۔ سوچا بینک جا کر عمران سے بات کروں یا محمد شریف سے پوچھوں، یہی سوچ کر میں نے گاڑی بینک جانے والے راستے پر ڈال دی۔ اچانک ایک سڑک پرمجھے ملنگ بیٹھا نظر آیا۔وہ سڑک کی دوسری طرف تھا۔ خدشہ تھا کہ جب تک میں موڑکاٹ کر اس تک پہنچوں گا کہیں چلا نہ جائے۔ اسی غرض سے میں نے گاڑی اسی طرف روک کر اسے آواز دی۔ اسنے چونک کر میری طرف دیکھا اورمسکرا دیا۔ میں نے اسے وہیں بیٹھا رہنے کا اشارہ کیا اورجلدی سے گاڑی موڑ کر اسکے پاس پہنچ گیا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’چل۔۔۔‘‘ اسنے بیٹھتے ہی حکم دیا۔ میں اس کے کہنے کے مطابق چل پڑا۔ بار بار اسکی طرف دیکھتا لیکن وہ تو شاید میری موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ آخر کار میں نے گاڑی کھیتوں کی طرف جانے والی سڑک پر ڈالی دی۔ کچھ اور آگے جا کر میں نے ایک درخت کے نیچے گاڑی کو روکا۔
’’بابا جی! میں بہت پریشان ہوں صائمہ۔‘‘
’’مجھے کیا بتاتا ہے سب پتا ہے مجھے‘‘ اس نے مجھے بری طرح جھڑک دیا۔ میں سہم کر خاموش ہوگیا۔ اس کا تھپڑ میں بھولا نہیں تھا۔ کچھ دیر وہ سرجھکائے بیٹھا رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا اس کی سرخ آنکھیں میرے چہرے پر جمی تھیں۔ میں کچھ دیر اس کی پر جلال آنکھوں کو دیکھتا رہا پھر رعب درویشی سے میری نظریں جھک گئیں۔
’’اگر کام ہماری بیٹیا کا نہ ہوتا تو توقیامت تک ہمیں تلاش نہ کرپاتا‘‘ بالاخر اسنے سکوت توڑا۔
’’لیکن اب بات ہمارے بس سے بھی باہر ہوگئی ہے۔ شیطانی قوتوں نے الحاق کر لیا ہے اور یہ سب کچھ تیری نادانی کی وجہ سے ہوا‘‘ اس کی تیز نظریں مجھ پر جمی تھیں۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’تجھے ایک مرد قلندر نے بہت سمجھایا تھا لیکن تو نے اس کے تحفے کی قدر نہ کی اور ذلت کی گہرائیوں میں دھنستا چلا گیا۔‘‘
کچھ دیر وہ سخت نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ ’’شاید قسمت میں یہ کچھ لکھا تھا۔ شاید قدرت تجھ سے کوئی خاص کام لینا چاہتی ہے‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’بابا جی! میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔‘‘
’’ابھی میں خود کچھ نہیں جانتا۔۔۔رب ذوالجلال جس قدر چاہتا ہے اپنے بندوں کو بتا دیتا ہے اس کی مرضی و منشا کے خلاف ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس نے سب کے ذمے کام لگائے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ تو قسمت کا دھنی ہے کہ تجھے پاک پروردگار نے کسی نیک کام کے لیے چن لیا ہے۔ اگر تونے اپنے دامن کو گندگیوں سے آلودہ نہ کیا تو بہت جلد کوئی فریضہ تجھے سونپا جائے گا ۔اگر نفسانی خواہشات سے بچا رہا تو کامیابی تیرا مقدر بن جائے گی۔ ورنہ ذلت کے گہرے سمندرمیں ڈوب جائے گا۔ شیاطین تیرے گردجال کس رہے ہیں خود کو ان کے چنگل سے بچا۔ عورت شیطان کابڑا ہتھیار ہے وہ اس داؤ سے بڑے بڑوں کو چت کر دیتا ہے۔ غیبت جھوٹ اور فحش گوئی سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔ کوشش کیا کر کہ ہر وقت تیری زبان سے ذکر الٰہی جاری رہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو توجس وقت یاد آئے اللہ پاک کے ذکر میں لگ جایا کر ۔ تیری بیوی اس وقت ایک خبیث جنّ کے چنگل میں پھنس چکی ہے لیکن وہ چونکہ پاکباز عورت ہے اس لئے وہ اس پر قابو پانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔ جادو کے ماہر کچھ لوگ اس جن کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جن زادی بھی اس کے بارے میں جاننے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اگر کوئی تمہاری مدد کر سکتا ہے تو وہ ایک ہی شخصیت ہے جس کو تم نے اپنی حماقت سے ناراض کر دیا ہے‘‘ میں جو بڑے دھیان سے ملنگ کی باتیں سن رہا تھا چونک گیا۔
’’کسے بابا جی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ان کا نام حضرت ابولحان ہے یہ وہی بزرگ ہیں جو محمد شریف کی درخواست پر تمہارے گھر کا حصار کرنے آئے تھے‘‘ میرا سر جھک گیا۔ میں رادھا کی محبت میں اندھا ہو کر خود اپنی تباہی کا سامان کربیٹھا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ملنگ نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’میرے بچے! اگر رونا ہے تو اس غفورالرحیم کے آگے سر سجدے میں رکھ کر رو جو سب کے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘ اس نے سمجھایا۔
’’بابا جی اب کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔ وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا۔
’’ایک وظیفہ بتا رہا ہوں رات کو اسے پڑھنا مقررہ تعداد مکمل کرنے کے بعد سو جانا جو خواب نظر آئے وہ محمد شریف کو بتانا اور اس سے درخواست کرنا کہ وہ حضرت صاحب کے گوش گزار کر دے۔ اگر محمد شریف اس بزرگ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا۔‘‘
’’بابا جی! میں اپنی شریک حیات کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ وہ جو کوئی بھی ہے کمبخت میری بیوی کے جسم کوحاصل کرنا چاہتا ہے میرے لئے نہ دن کو سکون ہے نہ رات کوچین۔ اگر خدانخواستہ اس نے صائمہ کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’اپنا دامن جلا ہے تو چیخ اٹھا ہے کمبخت۔۔۔! اس وقت تجھے ہوش نہ تھا جب تو نا محرم عورتوں کے ساتھ بدکاری میں ملوث تھا۔۔۔‘‘ ملنگ میری بات کاٹ کر دھاڑا۔ میں لرز گیا کچھ دیر وہ لال انگارہ آنکھوں سے مجھے گھورتا رہا پھر آہستہ آہستہ اس کا چہرہ معمول پر آگیا۔
’’حضرت صاحب بہت جلالی بزرگ ہیں، خیال رکھنا ان کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر بیٹھنا ورنہ ساری زندگی گلیوں میں رلتا پھرے گا‘‘ اس بار اس نے ذرا نرمی سے سمجھایا۔
’’تیری اہلیہ پر کچھ دن بہت سخت گزریں گے بڑی حکمت سے یہ دن گزارنا ہوں گے بچوں کی طرف سے بے فکر رہنا ہو معصوم ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے گا اس لئے ان کی کسی دھمکی میں آکر کوئی غیر شرعی کام نہ کر بیٹھنا ورنہ سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ فی الحال میں تجھے اتنا ہی بتا سکتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
’’بابا جی! اگر آپ سے ملنا ہو تو کہاں آپ سے مل سکتاہوں؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’بے کار ہے ۔۔۔سب بے کار ہے ۔ ہمیں تلاش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد ماگنا ور حضرت صاحب کو منانے کی کوشش ۔۔۔حق اللہ‘‘ اسنے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور بیٹھے بیٹھے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اب ان باتوں کا میں عادی ہوگیا تھا۔ میں مطمئن ہو کر بینک چلا گیا۔ ملنگ سے ملنے کے بعد میرے دماغ سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا اور خود کو ہلکاپھلکا محسوس کر رہاتھا۔ میں نے چپراسی کے ذریعے محمد شریف کو بلوایا۔
’’اسلام علیکم جناب!کیا حکم ہے؟‘‘ اس نے اندر داخل ہو کربڑی خوش اخلاقی سے پوچھا۔
’’بیٹھو محمد شریف!‘‘ میں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بیٹھنے کے بعد میں نے ساری صورتحال اسے بتا دی۔ وہ خاموشی سے سرجھکائے میری بات سنتا رہا۔ میں پر امید نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے جناب! ہے تو یہ بہت مشکل کام لیکن میں اپنی بہن صائمہ کے لئے ضرور کوشش کروں گا‘‘ بالآخر وہ بولا۔
’’تمہاری بہت مہربانی ہوگی محمد شریف! اس مشکل وقت میں تمہارا یہ احسان میں ساری زندگی نہیں بھولوں گا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔
’’جناب!کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔۔۔میں حتی الامکان کوشش کروں گا کہ آپ کا کام ہو جائے‘‘ اس نے عجز سے کہا۔ محمد شریف کے جانے کے بعد میں اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ شام کو ہم عمران کے گھر چلے گئے العرض وہ دن جتنااچھا گزرا تھا رات اتنی ہی بھیانک آئی۔ رات کا کھانا عمران کے گھر کھا کر ہم تقریبا گیارہ بجے کے قریب گھر آئے۔ میں نے وضو کرکے نماز پڑھی چونکہ میں نے وظیفہ کرنا تھا اس لئے چاہتا تھا صائمہ سو جائے تومیں ملنگ کا بتایا ہوا وظیفہ پڑھنے بیٹھوں۔ صائمہ نے آج سارے دن میں کوئی نماز نہ پڑھی تھی۔ ایک دوبار میں نے آہستہ سے اسے یاد دلایا کہ نماز کا وقت ہوگیاہے لیکن اس کے کان پرجون تک نہ رینگی۔ عشاء کو بھی وہ بغیر نماز پڑھے سونے کے لئے لیٹ گئی۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا کہیں خدانخواستہ پھر اسکی طبیعت نہ بگڑ جائے یا وہ کوئی ایسا لفظ نہ منہ سے نکال بیٹھے جو کفر کا باعث بن جائے تھوڑی دیر بعد وہ سو گئی۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں