میں نے محسوس کیا کہ ہم دونوں ہی سیاحت اور سیر و تفریح کو بہت پسند کرتے تھے اس لیے میں نے ترکی اور امریکہ کے بعد 2 اور مقامات کی سیر کا ارادہ کیا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:216
سامعہ ترکی جانا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نے ترکی جانے کا منصوبہ بنایا اور ساتھ ہی وہیں سے آگے امریکہ جانے کا منصوبہ بھی بنا لیا تاکہ وہاں عمر، رابعہ اور اپنے پوتے میکائیل اور پوتی نور سے ملاقات ہو جائے۔ 2 اکتوبر 2017ء کو ہم استنبول کے لیے روانہ ہوئے جہاں ہم نے 4 دن قیام کرنا تھا۔ یہاں ہم نے بہت سے مقامات کی سیر کی جس میں ٹوپ کپی، بلیو مسجد۔ آیا صوفیہ اور ڈولما باچے محل شامل تھے اس کے علاوہ ہم نے ہوٹل میں ترکی کا روایتی گرم غسل بھی کیا۔استنبول میں خوب مصروف دن گزار کر ہم سان فرانسسکو کے جہاز پر سوار ہو گئے۔ یہاں میرے ذہن میں ایک بار پھر سامعہ کی صحت کے حوالے سے کچھ خدشات جنم لینے لگے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ سفر کے دوران، وہاں قیام اور واپسی کے سفر میں بالکل ٹھیک رہی تھی۔ اور مجھے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ہم نے امریکہ میں بہت سکون سے 3 ہفتے گزارے۔ عمر اور رابعہ نے جی بھر کے ہماری خدمت کی۔ چونکہ یہ سامعہ کا امریکہ جانے کا پہلا موقع تھا اس لیے میں نے اسے ان تمام سیاحتی اور مشہور مقامات کی سیر کرائی جو میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ رکھے تھے۔ میں عمر کے ہاں بھی 6 سال بعد آیا تھا۔ وہ اب پالو آلٹو منتقل ہو گئے تھے۔ جو ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ تھا۔ انھوں نے یہاں کے متمول علاقے میں ایک پیارا سا گھر لیا ہوا تھا۔ اس علاقے میں زیادہ تر آئی ٹی کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسر وں کی رہائش تھی جس میں اسٹیو جاب بھی شامل تھا۔ یہیں امریکہ کی ایک مشہور سٹینفورڈ یونیورسٹی بھی تھی جو ان کے گھر سے بہت قریب تھی اتنی قریب کہ وہاں پیدل بھی جایا جا سکتا تھا۔ میں سامعہ کو لاس ویگاس بھی دکھانے لے گیا وہاں ہم نے2 رات کے لیے قیام کیا اور بہترین وقت گزار کر پالو آلٹو واپس آگئے۔ امریکہ میں اپنا قیام مکمل کرنے کے بعد ہم ترکی کی ائیر لائن کی پرواز کے ذریعے استنبول آئے اور وہاں سے لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور 31 اکتوبر 2017 ء کو واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔
میں نے محسوس کیا تھا کہ ہم دونوں ہی سیاحت اور سیر و تفریح کو بہت پسند کرتے تھے اس لیے میں نے سامعہ کے ساتھ 2 اور مقامات کی سیر کا ارادہ کیا۔ جن میں ایک تو آزاد کشمیر تھا جس کی خوبصورتی کے بارے میں، میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا اور میں خود بھی وہاں جانا چاہتا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اپنے دوست اکرم شیخ اور طاہرہ کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا اور اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی ساتھ چلنے کو آمادہ بلکہ پرجوش تھے۔ میں نے مظفر آباد کے پی سی ہوٹل میں 2 کمرے بک کروا لیے تھے۔ اور پھر ہم اپریل 2017 کو اسلام آباد پہنچ گئے۔ مظفر آباد اسلام آباد سے 178 کلو میٹر دور ہے۔لیکن اس سفر کو نبٹاتے ہمیں 5گھنٹے لگ گئے کیوں کہ مری کے آگے سڑک کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے اور یہ نسبتاً تنگ بھی تھی۔ شام کو ہم مظفر آباد پہنچ گئے جو آزاد کشمیر کا دارالخلافہ بھی ہے۔ ہم ہوٹل پہنچے جو بلندی پر ایک بہت ہی خوبصورت مقام پر بنا ہوا ہے۔ جہاں سے سارا مظفر آباد شہر اور گردو نواح کا علاقہ ایک بہترین منظر پیش کرتا ہے۔
مظفر آباد شہر دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دونوں دریا جس انداز سے یہاں پہنچ کر یک جان ہوتے ہیں وہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ 2005 کے زلزلے میں یہ شہر بری طرح تباہ ہوا تھا جس میں اس شہر کی نصف سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوگئی تھیں اور کئی ہزار لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ لیکن جب ہم وہاں گئے تو زیادہ تر شہر کی تعمیر نو ہو چکی تھی۔ یہ ایک خاموش سا شہر ہے جس کو دریائے جہلم اور دریائے نیلم مختلف مقامات پر کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ یہاں کے مشہور تاریخی مقامات میں پیر چناسی، لال قلعہ، نیلم ویلی اور دونوں دریا یعنی نیلم اور جہلم ہیں۔ ہم نے بھی ان میں سے کچھ علاقے دیکھے۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔