دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ چھبیسویں قسط
ترجمہ: نظام الدولہ
اگلی صبح میں بڑے ارمانوں سے کنٹین کے ٹھیکیدار سے ملنے نکلا اور دل میں دعائیں کرتا رہا کہ میرا کوئی جان پہچان والا نہ مل جائے۔ وہاں پہنچا تو آغا جی کے ایک دوست کا چھوٹا بھائی خلاف توقع سامنے کھڑا تھا۔ وہ نہایت نرم خو تھا۔ اس نے مجھے کرسی دی۔ اسکا نام تاج خان تھا جبکہ اس کے بڑے بھائی فتح محمد خان تھے جو OBEکے تحت خدمات انجام دیتے تھے۔ میں نے اسے اپنا تعارف کرایا کہ بمبئی سے ملازمت کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ اس نے مجھے کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ جس سے معلوم ہوکہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔ حالانکہ میں اس کے خاندانی پس منظر سے بخوبی آگاہ تھا۔ آغا جی اکثر ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی کہانی، پچیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
تاج محمد نے پٹھان ہونے کے ناطہ سے مجھ سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے مجھے درخواست لکھنے کے لیے سادہ کاغذ اور قلم دیا اور کنٹین منیجر کے نام درخواست لکھنے کے لیے کہا۔ وہ خود ہی لکھواتا رہا۔ درمیان میں میں نے اس کی غلط ملط انگریزی کی درستی بھی کی۔ میری رواں انگریزی سے وہ متاثر ضرورہوا مگر ظاہر نہیں کیا کیونکہ میری اہلیت کو تسلیم کرنے پر اس کی سبکی ہو سکتی تھی۔
منیجر کو ایک ایسے معاون کی ضرورت تھی جو اس کے بوجھ کو کم کرسکے۔ واقعی وہ کام سے لدا ہوا تھا۔ وہ خوش مزاج تھا ۔ میری رواں انگریزی نے اسے متاثر کیا۔ اس نے مجھے تھپکی دی اور کام سمجھانا شروع کر دیا۔ بعدازاں مجھے ایک کمرہ بھی دکھایا اور انتہائی گرم جوشی سے میرا ہاتھ دبا کر ملازمت کی نوید سنا دی۔ حیرت ہے۔ میں نے ان سے کام کی تنخواہ نہیں پوچھی نہ انہوں نے بتائی تاہم مجھے گمان تھا کہ جتنی بھی ہوگی اس سے میرا اچھا بھلا گزارہ ہو سکتا تھا۔
جس مقصد کیلئے میں پونا آیا تھا وہ پورا ہوگیا اور مجھے گونا اطمینان اور سکون حاصل ہوا۔ میں بے حد خوش تھا کہ اب میں خود بھی کما سکتا ہوں اور مجھے رہائش بھی مل گئی ہے۔ میرا اعتماد بڑھ گیا اور پونا میں اجنبیت اور جھجھک قدرے ختم ہوگئی۔ اب میں خود کو آگے لے کر چل سکتا تھا۔ یہ ہی وہ خودسری کالمحہ تھا جب میں آغا جی پر ثابت کر سکتا تھا کہ میں دوسرے بھائیوں کی طرح نکمانہیں اوراپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہوں۔
ذرا یہ بھی سن لیجئے۔ میری ذمہ داریاں کافی تھیں۔ منیجمنٹ کا کام تھا۔ مجھے اسٹاک کی پڑتال کرنا ہوتی تھی مثلاً پھل، کریانہ، سبزیاں، انڈے، دودھ، مکھن، پنیر کی روزانہ پڑتال کرنا اور مارکیٹ سے تازہ مال لانا ہوتا تھا۔ مجھے اپنے کام میں نہایت مہارت سے یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ کوئی دکاندار دھوکے اور فریب سے باسی شے مجھے فروخت نہ کر دے۔ اس طرح کمپنی میں صفائی ستھرائی اور صحت کے اصولوں کو قائم رکھنا، تالاب اور تالاب کے پانی کی مکمل اور بہترین صفائی ایسے امور میرے ذمہ تھے۔ اس کے علاوہ ان بارز میں جہاں آرمی کلب کے اراکین آتے تھے وہاں گرمی کے موسم میں بیئر اور الکحل والے مشروبات کا سٹاک برقرار رکھنا اور خواتین کے لیے فروٹ جوس کے اسٹاک کو دلکش انداز میں برقرار رکھنا بھی میرے ذمہ تھا۔ اسٹاک اور اخراجات کے دیگر معاملات کی پڑتال اور حساب بھی مجھے ہی کرنا ہوتی تھی۔ اس کے لیے رجسٹر الگ الگ تھے۔ جس وقت وہ مجھے کاموں کی تفصیل بتا رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ بطور منیجر اب اس کے پاس باقی کون سا کام بچا ہوگا۔ اس کا بوجھ تو کافی حد تک کم ہوگیا تھا کیونکہ سارا بوجھ تو مجھ پر لاد دیا گیا تھا۔ مجھے چند دنوں میں ہی اندازہ ہوگیا کہ منیجر اور کاروباریوں میں لین دین کا سمجھوتہ قائم ہے اور اس کے عوض وہ گھٹیا مال بھی فروخت کر دیتے تھے۔میں نے ان کا مال روک دیا کہ اس میں ملاوٹ ہے۔ دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہا اور منیجر کو آگاہ کیا تو اس نے مجھے مشورہ دیا کہ بھلا اس میں ہوگا کہ جو کام جیسا چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے۔
منیجر بیئر کی تعداد بڑھانے کے لیے بیئر کے پیپوں میں مقدار سے زیادہ برف اور ٹھنڈاپانی ملا دیتا تھا جس سے خر د برد میں اس کو کافی منافع مل جاتا تھا۔ میں نے سوچا کہ واقعی مجھے اس کے معاملات میں ٹانگ نہیں پھنسانی چاہئے۔ میں نے یہی کیا تو منیجر میرے رویہ سے بہت خوش ہوا اور اس نے مجھ سے نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے میری قدر دانی کی۔
بار میں باقاعدگی سے آنے والے بریگیڈئیر، کرنل اور میجروں سے میرے تعلقات بہت اچھے ہوگئے۔ منیجر اس پر برا نہیں مناتا تھا۔ یہ فوجی افسران باقاعدگی سے سنیکس لینے آتے تھے۔ بار کا ایک حصہ فوجی افسران کے لیے کھلا رہتا تھا اور دوسرے حصہ میں کبھی کبھار ٹومیز( برٹش آرمی میں باقاعدہ سولجرز نہیں تھے) آیا کرتے تھے۔ فوجی افسروں کے ساتھ دلکش اور حسین و جمیل عورتیں بھی آتیں اور سوئمنگ سوٹ پہن کر ان کے ساتھ تالاب میں تیراکی کرتیں۔ مجھے اس پر کافی شرم اور جھجھک محسوس ہوتی تھی۔میں جس طبقہ اور تہذیب سے تعلق رکھتا تھا وہاں عورتیں یوں بے حجاب ہونے کا تصور بھی نہیں کرتیں۔گھر میں بھی انکے سروں سے چادریں نہیں سرکتیں اور باہر نکلنے پر برقعہ اوڑھتیں۔کسی نامحرم سے بات کا تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔لیکن یہ بار تھی جہاں بے گانی عورتیں عریاں لباس میں تالاب میں نہاتیں ۔مجھے پہلے شرم آتی تھی لیکن میں نے اپنے جذبات کو چہرے پر امڈنے نہیں دیا تاکہ کسی کو میرے خوف کا علم نہ ہوسکے۔ان ماڈرن خواتین کو بھی مجھ پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔سب سے میری ہیلو ہائے ہونے لگی تھی۔
جاری ہے