کرکٹ کے شاہین، مٹی کے ڈھیر ثابت ہوئے!

  کرکٹ کے شاہین، مٹی کے ڈھیر ثابت ہوئے!
  کرکٹ کے شاہین، مٹی کے ڈھیر ثابت ہوئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارتی کرکٹ ٹیم کو گھر کے شیر کا طعنہ دینے والے شاہین اب خود ہی نیوزی لینڈ میں ڈھیر ہو گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اپنی ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کی ایلیٹ ٹیم (بقول عاقب جاوید) کو ایک روزہ عالمی کرکٹ میچوں کی سیریز میں کلین سویپ کر دیا اور یہ سیریز بھی 3-0سے جیت لی، اس سے پہلے نیوزی لینڈ ٹی۔20 سیریز 4-1سے جیت چکا ہوا ہے۔ یوں راولپنڈی کے دلیر نیوزی لینڈ میں مٹی کے ڈھیر ثابت ہوئے اور اب واپسی پر منہ چھپاتے پھریں گے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے شروع ہو کر اب تک یہ سنبھل نہیں پائے اور سنیل گواسکر کے طنز کا بُرا منانے والے انضمام الحق کو اب اپنے بھتیجے کا علاج کرانا ہوگا کہ وہ آخری میچ میں جبڑا تڑوا بیٹھا ہے۔ نیوزی لینڈ نے سینئر کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اور ثابت کیا کہ کھیل تو کھیل ہے اور بیک اپ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔

کرکٹ میرا شوق ہے، اس کے لئے بڑی چوٹیں بھی کھائیں اور وقت بھی ضائع کیا، لیکن دلچسپی کم نہیں ہو سکی۔ اس لئے میری رائے عصیبت یا مخالفت برائے مخالفت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس لئے اب میں گزارش کروں گا کہ سب سے پہلے عاقب جاوید سمیت سب کوچ اور سلیکٹر فارغ کر دیئے جائیں جو اپنے دعوؤں کے برعکس قطعی نااہل ثابت ہوئے ہیں، خصوصاً عاقب جاوید کے بارے میں تو عرض کروں گا کہ وہ خود ہی چلو بھر پانی میں ڈوب مریں اور آخر میں اپنے معزز صحافی محسن نقوی سے گزارش ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بورڈ کی ذمہ داریوں سے فراغت حاصل کرلیں کہ ان کے پاس قومی کام ہی بہت ہیں، کرکٹ کے لئے نہ تو وقت بچتا ہے اور نہ ہی ان کو اس کھیل کے بارے میں مطلوبہ علم ہے اور اسی لئے وہ ایک مخصوص لابی کا شکار بنے ہوئے ہیں۔

جب عاقب جاوید کی تجویز اور نگرانی میں ملکی گراؤنڈوں کی وکٹیں مکمل سپن کے لئے سازگار بنا کر مہمان ٹیموں کو ہرایا جا رہا تھا تو میں نے اس وقت بھی اس حکمت عملی پر سخت تنقید کی تھی اور یہی کہا تھا کہ ہمارے بیٹر اور باؤلر ایسی عادت میں مبتلا ہو گئے تو پھر وہ سنبھل نہ پائیں گے اور یہ تجویز تو درجنوں بلکہ سینکڑوں بار دہرائی جا چکی ہے کہ پاکستان کرکٹ کی بقاء کے لئے شمالی علاقہ جات میں سٹیڈیم بنا کر وکٹیں تیار کی جائیں، یوں ملک کے مختلف حصوں کے موسموں کی مناسبت سے ماحول اور وکٹیں مہیا کی جائیں جو عالمی سطح پر ہر ملک کی مناسبت سے ہوں۔ کھلاڑی مختلف حالات اور ماحول و موسم میں کھیلیں گے تو وہ ہر قسم کی وکٹوں پر کھیلنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں گے، اس سلسلے میں یہ نظر آیا کہ ایسی تجاویز کا اعلان کیا جاتا رہا اور نئے سٹیڈیم کی تعمیر کے لئے ایبٹ آباد کے علاوہ گلیات اور شمالی بلندی پر سٹیڈیم بنانے کی تجاویز پیش کی جاتی رہیں، لیکن مشق ستم کراچی، لاہور اور راولپنڈی تک محدود رہی۔ یوں کھلاڑیوں کے لئے ماحول پیدا نہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ کرکٹ بورڈ نے اکیڈیمی تو بنا دی لیکن کھلاڑیوں کی تیاریوں کا کوئی مناسب اور مستقل سلسلہ شروع نہیں کیا گیا اور نہ ہی ملک کی اندرونی سطح پر کھیلوں کا تسلسل بنایا گیا، چنانچہ اب جو بھی کھلاڑی سامنے آئے وہ پی ایس ایل کی معرفت ملے، سکول، کالج، یونیورسٹی اور کلب کرکٹ سے کوئی کھلاڑی نہ ملا، کرکٹ بورڈ کرکٹ کی دنیاکے مطابق اے، بی، انڈر 19-22اور 21ٹیمیں بنا کر کھلاتا ہے لیکن کھلاڑی کسی نرسری سے نہیں پرچی سے آتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے پاس نوجوانوں کا کوئی بیک اپ ہے اور نہ ہی ہم نے خود اس کا کوئی اہتمام کیا ہوا ہے، بلکہ ہم نے تو محکمہ جاتی ٹیموں کو بھی بحال نہیں کیا جو بورڈ کا مالی بوجھ کم کرتے اورمالی طور پر معاونت کرتے تھے کہ کھلاڑی ملازم رکھ لئے جاتے اور ان کا ذریعہ آمدنی ماہانہ تنخواہ ہوتی۔ اس کے علاوہ تمام تر دعوؤں کے باوجود ابھی تک کرکٹ تو کجا کسی اور کھیل کا انفراسٹرکچر نہیں بنایا گیا۔

کھیل میں فتح و شکست مقدر ہوتی ہے لیکن اچھی تربیت اور دلجمعی کے باعث میدان میں کوشش نظر آتی ہے مگر اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ میچ بری طرح سے ہارے جاتے ہیں، قارئین! یاد کریں جب سیریز جیتنے کے لئے سلوتر وکٹیں بنائی گئیں اور تنقید ہوئی تو عاقب جاوید نے اسے اپنا حق قرار دیا تھا اور تنقید و تجاویز کو درخوراعتنا نہیں سمجھا تھا، نتیجہ نیوزی لینڈ کے پہلے ہی دورے میں نکل آیا کہ کھلاڑی نہ تو باؤنسی وکٹوں پر کچھ کر سکے اور نہ ہی آخری ون ڈے میں میسر سپورٹنگ وکٹ کا فائدہ اٹھا سکے۔ باؤلنگ سکواڈ کی تعریفوں کے پل باندھے گئے  جو اس دورے میں کچھ نہ کر سکے الٹا زخمی ہوتے رہے۔ باؤنسی وکٹوں پر سکور کر پائے نہ وکٹیں سنبھال پائے اور پیپل کے پتوں کی طرح جھڑتے چلے گئے۔ بعض کھلاڑیوں نے کرکٹ کے تجزیہ نگار حضرات کی آراء یا تنقید کابُرا منایا،میں بھی متفق ہوں کہ عصیبت کی بنیاد پر تنقید اچھی بات نہیں، لیکن عاقب جاوید کی تشریف آوری کے بعد اگر ملک کے جنوبی حصوں میں کوئی کھلاڑی ہی نہیں اور سب کے سب کھلاڑی مرکزی اور شمالی علاقوں سے ہوں گے تو پھر تنقید تو بنتی ہے۔ اگر یہ سب کارکردگی کی بنیاد پر ہو تو پھر اعتراض نہیں، تاہم اگر کوچ حضرات اور سلیکشن کمیٹی سے یہ ”جرم“ سرزد ہو تو پھر تنقید تو بنتی ہے۔

موجودہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ کھلاڑیوں کے احتساب سے پہلے انتظامیہ کو گیٹ کا راستہ دکھایا جائے اور پھر بور ڈکے تمام معاملات کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے، قیادت ایسی لائی جائے جو اہل ہو اور بورڈ کا بوجھ کم کرنے کے لئے مالی وزن کم کیا جائے کہ بورڈ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کسی کام کے بغیر لاکھوں میں تنخواہ لے رہے ہیں۔

اب ذرا کھلاڑیوں کی بات کرلی جائے تو جب تک ہمارے کھلاڑی مستقبل کے بارے میں غیر یقینی حالات سے دوچار رہیں گے، پرچی کا نظام روکا نہیں جائے گا تب تک کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا نہیں ہوگا، کھلاڑیوں کی گروہ بندی ختم ہونا ضروری ہے اور جو ایسا کرتے ہیں ان کو راہ بھی دکھانا چاہیے۔ مقامی کرکٹ کو بھرپور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ رٹ چھوڑ دیں کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ بہت ہے اگر ایسا ہے بھی تو پہلے اس کی تربیت لازم ہے کہ سکول سے کالج اور کلب سے محکمہ جاتی کرکٹ کو فروغ دے کر مقابلے کرانا ضروری ہے۔ کھلاڑیوں کے چناؤ کے لئے ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی لازم ہونا چاہیے اور کسی عالمی مقابلے سے قبل بھی ایسا ہو تو بہتر نتائج ہوں گے۔

آخر میں یہ تجویز ہے کہ کرکٹ اکیڈیمی کو فعال اور جدید ترین ادارہ بنایا جائے۔ باؤلروں اور بیٹروں کی درجہ بندی کرکے ان کی جدید کرکٹ کے حوالے سے تربیت کی جائے اس کے لئے ملک کے شہروں میں کیمپ لگاکر، کھلاڑیوں کا چناؤ ہو، اکیڈیمی میں فزیکل ٹریننگ کا اہتمام بھی کیا جائے۔ بورڈ میں موجودپیر تسمہ پا  فارغ کرکے ماہانہ بچت سے اکیڈیمی میں تربیت کے لئے ماہرین رکھے جائیں، یہ سلسلہ مسلسل ہونا چاہیے اگر اب بھی نہ سنبھلے اور انا کے ساتھ پرچی کا نظام بحال رہا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

مزید :

رائے -کالم -