اس صدی کے آخر تک ایک تہائی جانداروں کی معدومی کا خظرہ، نئی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجادی

اس صدی کے آخر تک ایک تہائی جانداروں کی معدومی کا خظرہ، نئی تحقیق نے خطرے کی ...
اس صدی کے آخر تک ایک تہائی جانداروں کی معدومی کا خظرہ، نئی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجادی
سورس: Creative Commons: karmactive

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) اگر موجودہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا  تو زمین کی حیاتیاتی تنوع کا ایک بڑا حصہ اس صدی کے آخر تک معدومی کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں  گزشتہ 30 سالوں کے دوران 450 سے زیادہ تحقیقی مقالوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ عالمی انواع کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھتے ہوئے خطرات لاحق ہیں۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق کنیکٹیکٹ یونیورسٹی کے حیاتیات دان مارک اربن کی جانب سے کی گئی تحقیق نے مختلف درجہ حرارت کے اضافے کے منظرناموں کا جائزہ لیا۔ نتائج کے مطابق پیرس معاہدے کے تحت عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس سے کم رکھنے سے معدومی کے خطرات محدود ہو سکتے ہیں۔ تاہم 1.5 ڈگری سیلسیس اضافے کے باوجود تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار انواع یعنی 50 میں سے ایک، معدومی کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ 

مطالعہ خبردار کرتا ہے کہ اگر درجہ حرارت 2.7 ڈگری سیلسیس تک بڑھتا ہے تو یہ خطرہ دوگنا ہو جائے گا، اور ہر 20 میں سے ایک نوع کے معدوم ہونے کا امکان ہے۔ زیادہ درجہ حرارت کے منظرنامے جیسے 4.3 ڈگری سیلسیس، معدومی کی شرح تقریباً 15 فیصد تک لے جا سکتے ہیں، جو 5.4 ڈگری سیلسیس پر بڑھ کر تقریباً 30 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

مارک اربن کے مطابق ایمفیبینز خاص طور پر خطرے میں ہیں کیونکہ ان کا انحصار اپنے زندگی کے سائیکل کے لیے مستحکم موسمی حالات پر ہوتا ہے۔ جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ جیسے ماحولیاتی نظاموں کو معدومی کے خطرات کے لیے ہاٹ سپاٹ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کی علیحدگی ان کے مقامی انواع کے لیے ہجرت اور مطابقت کو مشکل بنا دیتی ہے۔ اربن نے لائیو سائنس کو بتایا کہ پہاڑوں اور جزیروں جیسے ماحولیاتی نظام خاص طور پر متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ارد گرد کے ماحول ہجرت کے لیے اکثر غیر موزوں ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق عالمی پالیسی کی کوششوں پر زور دیتی ہے تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کیا جا سکے اور ماحولیاتی نظاموں کا تحفظ کیا جا سکے۔