عطاء الحق قاسمی کے لئے

عطاء الحق قاسمی کے لئے
عطاء الحق قاسمی کے لئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیارے عطاالحق قاسمی کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات کب ہوئی، اب یاد نہیں، مگر یہ یادہے کہ پہلی ملاقات حضرت احمد ندیم قاسمی کے ’’حجرے‘‘ میں ہوئی تھی۔ ملاقات میں دیگر کئی نام ور شاعر اور ادیب بھی موجود تھے۔ ہم چھوٹے شہروں میں رہنے والے شاعر جب لاہور آتے تو لاہور میں موجود بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کی خواہش ایسی ہی ہوتی تھی، جیسی آج کل اکثر لوگوں کو قطرینہ کیف یا کسی زمانے میں ہمامالنی کو دیکھنے یا ملنے کی ہوا کرتی تھی۔ حضرت احمد ندیم قاسی تو خیر ادبی دنیا کے دلیپ کمارتھے ہی، مگر عطاالحق قاسمی بھی راجیش کھنہ یا آج کے شاہ رخ خان سے کم نہیں تھے۔ یہ ملاقات ٹی ہاؤس میں بھی ہوجاتی تھی، مگر ہم کوشش کرتے تھے کہ ملاقاتیں حضرت احمد ندیم قاسمی کے حجرے میں ہی ہوں، کیونکہ وہاں چائے مفت ملتی تھی ، جبکہ ٹی ہاؤس میں چائے کی قیمت کسی بھی فائیوسٹار ہوٹل کے برابر تھی، اگر کبھی غلطی سے کھانا کھا بیٹھے تو پھر واپسی کا کرایہ مانگ کہ جانا پڑتا تھا۔ خیر حضرت احمد ندیم قاسمی کے ’’حجرے‘‘ کا ماحول بہت خوبصورت تھا، وہ ہر ایک کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے، مگر جب وہ لفظوں کا کوئی ’غلاب‘ اچھالتے تو اس کا رخ عطا الحق قاسمی کی طرف کردیتے۔ جواباً، عطا الحق قاسمی بھی بڑی عقیدت کے ساتھ ان کے اچھالے ہوئے ’غلاب‘ کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے جسم پر مل لیتے تھے۔
غلاب اچھالنے اور سمیٹنے کے اس ماحول سے ہم نے اندازہ لگالیا کہ پوری محفل میں عطا الحق قاسمی کی حیثیت ویسی ہے جو کسی بڑے کرنی والے بزرگ کے خلیفہ اول کی ہوتی ہے۔ یہ صورت حال دیکھتے ہوئے ہم نے اپنے قریب بیٹھے اپنے دوست منصور آفاق سے کہا کہ تم دیکھنا یہ ’’منڈا‘‘ کوئی نہ کوئی چن چڑھائے گا ضرور، گو کہ ان دنوں بھی عطا الحق قاسمی ادبی دنیا کے آسمان کے چودہویں کا ’’چن‘‘ نہیں تو کم ازکم بارویں تیرویں کا ’’چن‘‘ ضرورتھے ۔ ہرطرف ان کے نام کا طوطی بولتا تھا۔ آج کل تو ماشاء اللہ ان کا پورا ’’طوطا‘‘ بولتا ہے، بلکہ ایسا بولتا ہے کہ بہت سوں کے طوطے اڑجاتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ہم نے عطا الحق قاسمی کی شخصیت کے حوالے سے جاننا شروع کردیا، ہم نے ان کی ساری کتابیں پڑھ ڈالیں، ان کے بارے میں لکھے گئے مضامین پڑھ ڈالے اور ان کے کالم تو گویا ہمارا ناشتہ بن گئے اور اس ناشتے نے ہماری ہرطرح کی صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب کئے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک میں عطاالحق قاسمی ہی سب سے بڑے کالم نگار اور مزاح نگار ہیں۔
قریب تھا کہ ہم عطا الحق قاسمی کی شخصیت کے بارے میں مزید جاننا بند کردیتے کہ بس یہ مزاح نگار اور کالم نگار ہیں، مگر ہمیں اس وقت حیرت ہوئی ۔ جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے جلسوں میں ان کے اشعار سنانے شروع کردیئے ، شروع شروع میں ہمارا خیال تھا کہ یہ اشعار حبیب جالب مرحوم کے ہیں، جوشاید ہمارے علم میں نہیں آئے، مگر جب ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ یہ عطاالحق قاسمی کے اشعار ہیں تو پھر ہم نے ان کے اشعار کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کی شاعرانہ حیثیت کو بھی جاننے کی کوشش شروع کردی۔ ہمارے ہاں اکثر شاعر لڑکیوں، میں بہت مقبول ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے، مگر ہمارے عطا الحق قاسمی تو لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں میں بھی مشہورہیں تو پھر اس حوالے سے تو یہ سب سے بڑے شاعر ہوگئے۔ میری ذاتی رائے میں جو شاعر عوام کے مسائل، ان کے غم اور محرومیوں کو بیان کرتا ہے وہ درحقیقت بلھے شاہ، شاہ حسین، وراث شاہ اوردیگر صوفی شعراء کے ورثے کا مالک ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ اشعار قوم کے روداد کی داستان بیان نہیں کررہے :

خوشبوؤں کا ایک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہئے
خواہشوں کو خوب صورت شکل دینے کے لئے
خواہشوں کی قید سے آزاد ہونا چاہئے
ظلم بچے جن رہاہے کوچہ وبازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے
قارئین محترم !پیارے عطا الحق قاسمی کی شاعری کے حوالے سے مزید تفصیلی روشنی ڈالنے کے لئے ہم استاد الشعراء حضرت ناصر زیدی کے کسی کالم کاانتظار کریں گے کہ وہ شاعری کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتے ہیں، اگر نوجوانوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے ہمارے دوست شاعر پاکستان ناصر بشیر کسی دن قلم اٹھائیں تو یہ دونسلوں کی ترجمانی ہوجائے گی، البتہ ہمارے دوست منور آفاق لندن میں بیٹھ کر عطا الحق قاسمی کی شاعری کے حوالے سے کوئی قلم سرائی کریں تو سونے پرسہاگے والی بات ہوگی۔ شاعری کے حوالے سے مزید روشنی ڈالنے کی ذمہ داری ان معزز شعراء پر ڈالتے ہوئے اب مَیں ایک بار پھر عطا الحق قاسمی کی شخصیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موصوف خیر سے ’’بہتر‘‘ سال کے ہوگئے ہیں، ہمارے ہاں جب کوئی ستر، بہتر سال کا ہوجائے تو پھر یار لوگ چھیڑنے کے انداز میں اسے سترہ بہترہ کہنا شروع کردیتے ہیں، مگر یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ بعض ’’سترے بہترے‘‘ خود ہی خود کو ’’سترہ بہترہ‘‘ کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں ، مگرہمارے عطا الحق قاسمی کا معاملہ مختلف ہے ، موصوف بہتر سال کی عمر میں بھی ’’سترہ‘‘ سال کے نوجوانوں کی طرح چاک وچوبند ہیں، ان کی مصروفیات اب بھی وہی ہیں، جو آج سے پچاس سال پہلے تھیں۔ آج بھی وہ صبح سات بجے اپنے آفس میں موجود ہوتے ہیں اور رات دوبجے سے پہلے کوئی ’’مائی کا لال‘‘ انہیں سلا نہیں سکتا
اندرون ملک مختلف شہروں میں تقریبات میں شرکت تو خیر روز کا معمول ہے، مگر موصوف لندن ، امریکہ، جاپان اور دیگر ممالک میں بھی یوں آتے جاتے ہیں، جیسے صبح سویرے کوئی بچہ بھاگتے ہوئے جاتا ہے اور ’’چکڑچھولے‘‘ لے آتا ہے۔ چکڑ چھولے سے مجھے یاد آیا کہ موصوف کھانے پینے کے بھی بہت شوقین ہیں اور یہ شوق اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، جب ان کے پاس کوئی مہمان بھی ہو۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس کوئی مہمان نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کے اکثر ہوٹلوں والے ان کی درازی عمر کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ ان کے ہاں کھانا کھانے والے دوستوں کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، کہ ان میں سے دعا دینے والے کتنے ہیں اور ’’دغا‘‘ دینے والے کتنے ہیں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عطا الحق قاسمی کی سب سے ’’گوڑی‘‘ یاری میرے ساتھ ہے، مگر آپ ان کے کسی بھی دوست سے پوچھ کے دیکھ لیں، ہرایک کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ’’میرا بھی تو ہے‘‘ ۔۔۔قدرت نے عطا الحق قاسمی کو دوست بنانے اور دوستی نبھانے کی خصوصی صلاحیت عطا کررکھی ہے پاکستان بھر میں مجھے کوئی ان کا ایک دشمن بھی نظر نہیں آتا اور بالفرض اگر کوئی ان کے ساتھ دشمنی کا دعویٰ کرے تو آگے سے وہ (عطا الحق قاسمی ) اسے اپنا دشمن ماننے سے انکار کردیتے ہیں، ہمارے عطا الحق قاسمی کا خیال ہے کہ جب کسی کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھالیا پھر اس کے ساتھ دشمنی کیسی ؟
خیر یہ تو ان کے دشمنوں کی بات تھی۔ اب ذرا ان کی محفلوں کی بات بھی ہو جائے۔ عطا الحق قاسمی کی محفلیں، دیکھتے اور سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ محبت کے سارے رنگ اس میں موجود ہوتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے درمیان خوشیاں تقسیم کی جائیں، آج کل وہ خوشیوں کے ساتھ ’’وظیفے ‘‘ بھی تقسیم کرتے ہیں،بطور چیئرمین الحمراء آرٹس کونسل وہ شاعروں، ادیبوں ،گلوکاروں، موسیقاروں اور دیگر فنکاروں کی مالی امداد کا انتظام کرتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ان کے ساتھ ملاقات کرنے سے کتراتے ہیں ، کیونکہ موصوف ہر ملاقات میں مختلف گلوکاروں، فن کاروں،اداکاروں اور دیگر مختلف لوگوں کی درخواستوں کا پورا ٹرک اٹھائے ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں، یعنی وزیراعلیٰ پنجاب کو علم ہوتا ہے کہ عطا الحق قاسمی سے ملاقات کا مطلب یہ ہے کہ مستحق فن کاروں کے لئے مزید تین چار کروڑ کی امداد کا اعلان کیا جائے، ویسے وزیراعلیٰ فن کاروں کے حوالے سے ان کی بات ٹالتے کم ہیں، اب آخر میں بہتر سال کی عمر کے حوالے سے ہی ہمارے عطا الحق قاسمی کا ایک خوبصورت مکالمہ ملاحظہ فرمائیے ۔ مَیں اورملک کے معروف کارٹونسٹ جاوید اقبال ان کے پاس بیٹھے تھے، ایک پرستار ان سے ملنے آگئے، ان پرستارنے آتے ہی کہا قاسمی صاحب آپ خاصے بوڑھے ہوچکے ہیں، انہوں نے جواب دیا ، آخر بوڑھے بھی انسان ہی ہوتے ہیں، مگر آپ یہ بتایئے، آپ کی عمر کتنی ہوگئی ہے؟ پرستار نے جواب دیا یہی کوئی پورے 70سال۔ عطا الحق قاسمی نے بڑے غور سے ان کی طرف دیکھا اور کہا، یارکمال کی بات ہے دیکھنے میں آپ زیادہ سے زیادہ 75سال کے نظر آتے ہیں۔

مزید :

کالم -