انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 54
میری لینڈ، کیرولینا اور جارجیا
امریکہ کی طرف ہجرت کرنے والے انگریزوں میں دونوں عیسائی فرقوں کے پیرو کار شامل تھے ۔ لیکن اکثریت کیتھولک کی تھی۔ میری لینڈ کی بنیاد کیتھولک کے لئے ایک محفوظ اور پر سکون کالونی کے طور پر رکھی گئی ۔یہ دریائے پوٹومک کے شمال کا علاقہ ہے جو سسیل کا لورٹ نامی شخص کو دیا گیا تھا۔ اس کا بھائی لینرڈ2 سو آباد کاروں کو اپنے ساتھ لایا جس نے 1634میں ایک کالونی کی بنیاد رکھی ۔ بادشاہ کی بیوی کے مرنے کے بعد اس کے نام میری کے اعزاز میں اسکا نام میری لینڈ رکھا گیا ۔ 1640 تک اس میں 500 افراد آباد ہوئے لیکن جلدہی یہ تمباکو کو پیدا کرنے والی دوسری بڑی کالونی بن گئی ۔ اسی طرح 1663کے بعد کرولینا میں آبادکاروں کو اہم اثاثہ جات زمین کے ٹکڑے چارلس دوم کی طرف سے تفویض کئے گئے جس کی وجہ سے وہ وہاں آباد ہوئے ۔
یہ آباد کا روجینیا نیو انگلینڈ اور کیربین سے آئے تھے ۔ 1670میں چارلس کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔ اور جلد ہی کرولینا ایک غلام ریاست بن گئی ۔ 17ویں صدی کے اختتام تک باغات اور زرعی شعبوں میں کام کرنے کے لئے بہت سے غلاموں کو لایا گیا ۔ 18ویں صدی کے اوائل میں شمالی امریکہ میں افریقی غلاموں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔ 1701میں کیرولینا کو شمال اور جنوب کے 2حصوں میں تقسیم کرکے30 سال بعد جارجیا کی بنیاد رکھی گئی۔ جب جارج دوم نے اس کو چارٹر کا درجہ دیاگیا اس کا نام جارج کی موت کے بعد جارجیا رکھ دیا گیا اور پہلی آباری سواناہا قراردی جاتی ہے ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مذہبی بیداری اور بر طانیہ سے کشمکش
18ویں صدی کے آغاز میں شمالی امریکہ کی کالونیوں میں تجدید مذہب کی لہر نے سر اٹھایا جو دیکھتے ہی دیکھتے کئی ریاستوں میں پھیل گئی ۔ (ا س کو بعدازاں آگاہی کا نام دیا گیا) اس تجدید میں بڑے بڑے نام شامل تھے ۔ ان میں الیم ٹینینٹ جو ایک سکاٹش پر سیبٹرین مبلغ ،جان تھن ایڈورڈ ایک مڈہبی پیشوا اور جان ڈیون پورٹ پیش پیش تھے۔ انگریز مبلغ جارج وائٹ فیلڈنے بھی کئی کالونیوں کا دو رہ کیا اور کئی ایک عیسایوں کو اپنے حلقے میں شامل کیا ۔انگریزوں کاخیا ل تھا کہ شمالی امریکی ریاستوں میں ان کا مذہبی عقیدہ نافذ ہو اور کالونیوں سے حاصل ہونے والی پیداوار کو براہ راست ٰ انگلینڈ کی زیر نگرانی رکھا جائے ۔اس رویے سے مقامی آبادی میں غم وغصہ پایا جانے لگا ۔ 1651کے آ غازمیں برطانوی پارلیمنٹ نے جہاز رانی کے ایکٹ منظور کیے جن میں ایک 1660کا ایکٹ بھی شامل تھا جس کے مطابق کاٹن ،چینی، تمباکو اور نیل کو صرف انگلینڈ برآمد کیا جاسکتا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی انگریزوں نے کئی ایک قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی جن کو کالونیو ں کے باسیوں نے نظرانداز کر دیا۔ 1763کے ان قوانین کے نفاذ کے لئے سختی سے کام لیاگیا جس سے انگریزوں اور مقامی آبادی کے درمیان نا راضگی بڑھ گئی۔ 18 ویں صدی کے شروع میں شمالی امریکی کالونیوں کی آبادی 3 لاکھ تک پہنچ گئی جو 1760 میں 10لاکھ تھی ۔ ان میں ایک بڑی تعداد شمالی آئرلینڈ کے ان تارکین وطن کی تھے ۔ جو سکاٹش پریس بائی ٹیرین کی اولاد تھے۔ ان کے علاوہ جرمن باشندوں اور سکاٹ لینڈ کے تارکین کی ایک بڑی تعداد شمالی امریکہ میں سستی زمین کی وجہ سے بہتر زندگی گزارنے کے لیے آباد ہوگئی۔
نمائندگی کے بغیر ٹیکس سے انکار ۔ایک اور عظیم اعلان
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ 1763 کے بعد انگریزوں اور مقامی آبادیوں کے درمیان حالات کشیدہ ہو چکے تھے۔ اسی سال برطانیہ اور فرانس کی سات سالہ جنگ کا اختتا م ہوا تھا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے کینڈا کو فتخ کر لیا تھا لیکن انگریزوں کو یہ جنگ بہت مہنگی پڑی تھی۔ وہ مقامی امریکیوں سے لڑنے کے خواہاں نہ تھے ۔ 1763میں برطانوی شاہی اعلان کیا گیا جسے عظیم اعلان کا نام دیا گیا ۔ اس کے مطابق مغرب کی طرف مزید پھیلاؤ پر پابندی لگادی گئی اور بحراٹلانٹک کے مغربی یا شمال مغربی علاقوں ،جو دریاؤں کے وسائل سے دور زمین پر واقع تھے ،پر لوگوں کی آبادی ممنوع قرار دیدی گئی ۔ اس اعلان کو بھی کالونیوں کے باسیوں نے نظر انداز کر دیا جس سے باہمی کشمکش کو مزید ہوا ملی ۔
1763تک چند امریکی ٹیکس ادا کرتے تھے جو انگریزوں سے کم تھے۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ امریکی اپنے دفاع کی قیمت کے ضمن میں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ 1764میں برطانوی وزیر اعظم جارج گرین ویل نے شوگر ایکٹ منظور کر کے نافذ کر دیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے چینی کی راب (خام چینی )پر عائد ڈیوٹی کم ہوگئی لیکن اس کا اصل مقصد اسے جمع کرنا تھا ۔ اس قانون سے بھی امریکی بھڑک اٹھے لیکن ان کو 1764کے کرنسی ایکٹ نے انگریزوں کے خلاف آگ بگولہ کر دیا۔ اس سے قبل کالونیاں اپنی کرنسی خود چھاپتی تھی لیکن اس قانون کے ذریعے کاغذی کرنسی پر پابندی عائد کردی گئی ۔ اس کے علاوہ 1765کے اسٹمپ ایکٹ سے حالات مزید خراب ہوگئے جس کی روسے قانونی دستاویزات اخبارات اور تاش کے پتوں کے چھاپنے پر ڈیوٹی نافذ کردی گئی۔ امریکیوں کی نفرت میں ٹیکس ادا کرنے کے بجائے اس میں آئینی مداخلت کی وجہ سے اضافہ ہوا ۔ ان کا خیال تھاکہ برطانوی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کے بغیر ٹیکس کا نفاذ استحصال کے برابر ہے ۔ان دنوں یہ فقرہ بہت مشہور ہو’ا نمائندگی گی کے بغیر ٹیکس ادا نہیں کیا جائے گا‘ ۔ اسٹمپ ایکٹ جلد ہی ناقابل اطلاق بنا دیاگیا۔ کالونی اسمبلیوں نے اس کو کالعدم قرار دیدیا اور 1765 میں کئی کالونیوں نے برطانوی اشیا کی درآمدات کا بائیکاٹ کردیا۔ برطانوی تاجروں کے قرضے معطل کردئیے گئے۔ مزاحمت کی تیاریاں عروج تک پہنچ گئیں، ہنگامے شروع ہوگئے اور ہڑتالیوں نے ٹیکس جمع کرنے والوں اور ان کی جائیدادوں پر حملے شروع کردئیے ۔ آخرکار 1766میں برطانیہ اسٹمپ ابکٹ منسوخ کرنے پر مجبور ہوگیا۔
اسی سال برطانیہ نے ڈ یکلا ر یٹری ایکٹ منظور کرنے کی ایک مزید حماقت کا مظاہرہ کیا جس کے مطابق پارلمینٹ کو تمام امریکی کالونیوں پر مقتدر قراردیاگیا۔ مزید یہ کہ برطانیہ نے ان تمام اقدامات سے کوئی سبق نہ سیکھا ۔ برطانیہ کے ان 1767 میں ایکسچیکر کے چانسلر نے چائے ،سیسہ، آئل، پینٹ رنگ اور شیشے پر ڈیوٹی عائد کردی۔ 1770میں چائے کے علاوہ تمام اشیاء پر ڈیوٹی ختم کرنا پڑی۔
بوسٹن قتل وغارت اور چائے کی پارٹی ۔
مارچ 1770کو لوگوں کے ایک گروپ نے برطانوی سپاہیوں پر برف کے گالے پھینکے جس سے سپاہیوں نے مشتعل ہو کر عوام پر فائر کھول دیا اور 5افراد موت کے گھاٹ اتار دئیے ۔ کچھ لوگ اس واقعہ میں شدید زخمی بھی ہوئے۔ ان سپاہیوں میں سے 6کے خلاف مقدمہ قائم ہوااور 2پر فرد جرم عائد کی گئی ۔ ان دوکو بھی معمول سزاسنائی گئی جس سے امریکی رائے عامہ برطانوی حکام کے خلاف ہوگئی ۔ بوسٹن چونکہ امریکی مزاحمت کا مرکز تھا ۔ لہذا 1773میں اسٹیٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے فروخت کے لئے بوسٹن بھیجی جانے والی چائے کو امریکیوں نے سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد بوسٹن بند ر گاہ کو بند کردیا گیا اور کئی ایک قوانین منظور کیے گئے جس کو امریکیوں نے اس اقدام کو برطانوی طاقت میں اضافہ قرار دیتے ہوئے مزاحمت کو منظم کرناشروع کردیا۔ (جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں