یکے بعد دیگرے ایک دو واقعات ایسے دیکھنے میں آئے جس نے دل دہلا کے رکھ دیا، شدت سے احساس ہوا کہ میرے وطن میں موت کتنی ارزاں ہو گئی تھی

یکے بعد دیگرے ایک دو واقعات ایسے دیکھنے میں آئے جس نے دل دہلا کے رکھ دیا، شدت ...
یکے بعد دیگرے ایک دو واقعات ایسے دیکھنے میں آئے جس نے دل دہلا کے رکھ دیا، شدت سے احساس ہوا کہ میرے وطن میں موت کتنی ارزاں ہو گئی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:323
موت جیت جاتی ہے
ابھی مجھے ہسپتال میں آئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ یکے بعد دیگرے ایک دو واقعات ایسے دیکھنے میں آئے جس نے دل دہلا کے رکھ دیا اور شدت سے احساس ہوا کہ میرے وطن میں موت کتنی ارزاں ہو گئی تھی۔ لاقانونیت اس قدر خوفناک شکل اختیار کر چکی تھی کہ سوچ کر ہی خوف آتا تھا۔ ریاض کے ہسپتال میں گو میرے کام کی نوعیت انتظامی تھی، پھر بھی میں نے وہاں آج تک کبھی کسی کو مرتے یا کسی میت کو نہیں دیکھا تھا۔ ایک خودکار نظام کے تحت سب کچھ متعلقہ محکمے کے افراد ہی سنبھال لیتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ لیکن یہاں ایک تو ہسپتال چھوٹا سا تھا، دوسرا انتظامی امور ایسے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے معاملات سے دامن چھڑانا ممکن نہیں تھا۔
ایک رات دل کے ایک ایسے مریض کو ایمرجنسی میں لایا گیاجو اپنے وقت کی ایک تشدد پسند تنظیم کا سرگرم رہنما تھا، اسے دل کا ایک دورہ پہلے بھی پڑ چکا تھا اور اب پھر حالات بہت زیادہ اچھے نہیں تھے۔ ہسپتال کے باہر سینکڑوں لوگوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا تھا جو اس کے پیرو کار تھے اور ان میں سے اکثر مسلح تھے۔ جیسا کہ عموماً آپریشن تھیٹر کے ماتحت عملے کی ایک عادت ہوتی ہے کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی بہانے سے با ہرآ کر مریض کے عزیزوں کو تسلی دینے کے لیے سرگوشیوں میں بتا جاتے ہیں کہ اندر سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے اور یہ کہ آپریشن کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس دن بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ لیکن حقیقت میں اندر کے حالات بہت مختلف اور کافی سنجیدہ تھے اور سرجن اس کی جان بچانے کے لیے موت سے ایک جنگ لڑ رہے تھے۔ آخر موت جیت گئی اور رات 10 بجے کے قریب اس مریض کا آپریشن تھیٹر میں ہی انتقال ہو گیا، جیسے ہی یہ خبر باہر پہنچی اور آگ کی طرح پھیلی تو باہر کھڑے لوگ مشتعل ہو گئے اور نعرے لگانے لگے کہ آپریشن کرنے والے ڈاکٹر کو باہر نکالو اور ہسپتال کو آگ لگا دو، انھوں نے اپنا اسلحہ ہوا میں لہرانا شروع کر دیا۔ تب ہی ڈاکٹر صاحب گھر جانے کے لیے باہر نکلے، میں نے انھیں منع کیا کہ آپ باہر نہ جائیں وہاں ماحول سخت کشیدہ ہے ایسا نہ ہو کہ بپھرا ہوا ہجوم آپ کو کوئی نقصان پہنچا دے۔ڈاکٹر صاحب بہت ہی نیک دل انسان اوربڑے دل کے مالک تھے کہنے لگے کہ”میرا قصور کیا ہے جو میں ان سے ڈروں“ اور پھر وہ باہر نکل گئے۔ ان کو دیکھتے ہی کسی نے نعرہ لگایا کہ”یہی ہیں جنہوں نے آپریشن کیا ہے“، سب ان کی طرف لپکے۔ ہمارے ہسپتال کی سیکیورٹی والوں نے ان کو گھیرے میں لیا ہوا تھا لیکن وہ اتنے بڑے مجمع کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے، میں نے احتیاطاً پولیس کو بھی فون کر دیا تھا اور وہ بھی فوراً وہاں پہنچ گئے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے ان کو بڑے اعتماد سے کہا کہ”جب آپ یہاں اپنا مریض لائے تھے تو آپ کو بھی علم تھا کہ ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، میں انھیں لینے سے انکار بھی کر سکتا تھا پھر بھی میں نے یہ خطرہ مول لیا اور آخری چارے کے طور پر ان کا یہ دشوار آپریشن کیا جس کی ان کے ورثاء اور آپ لوگوں نے باقاعدہ اجازت بھی دی تھی۔ اب اگر وہ زندہ نہیں رہے تو میں اللہ کی رضا کے سامنے کیا کر سکتا ہوں“۔ مجمع میں ایک سمجھدار بزرگ بھی تھے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کو سمجھابجھاکر ٹھنڈا کیا، تھانیدار نے بھی ان کے لیڈروں سے بات کی اور یوں یہ لوگ منتشر ہو ئے تاہم جاتے جاتے بھی کچھ شرپسند پتھراؤ کر گئے جس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔
اس واقعہ کو ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز صبح9 بجے کے قریب ہسپتال کے بالکل سامنے سے گزرنے والی سڑک سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی بلند آواز آئی، ہم سب بھاگ کر باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک گاڑی الٹی پڑی تھی جس میں پولیس کا ایک ڈی ایس پی اور اس کا گارڈ خون میں لت پت پڑے تھے، ان کے ساتھی ان کو فوراً نکال کر ہمارے ہسپتال لے آئے لیکن اس وقت تک دونوں کی موت واقع ہو چکی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پولیس آفیسر کسی دہشت گرد تنظیم کے پیچھے لگا ہوا تھا جس پر اس کو ٹھکانے لگوا دیا گیا۔ یہ پہلا قتل تھا جو میں نے اپنے سامنے ہوتا دیکھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -