ملالہ یوسف زئی کو’’ پلانٹ‘‘ کیا جائے گا
اکتوبر2012ء کی سب سے اہم خبر سوات کے علاقہ میں دہشتگردوں کی طالبات پر فائرنگ کا واقعہ تھی، جس میں ملالہ یوسفزئی کو سر میں گولی لگی اور دو اور طالبات بھی زخمی ہوگئیں۔ ویسے تو طالبان نام سے مشہور دہشتگردوں نے لاتعداد بچوں، بچیوں اور بڑوں پر ظلم کئے مگر یہ واقعہ حیرت انگیز طور پر پاکستان اور عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوگیا۔ ملالہ یوسفزئی سے متعلق آناً فاناً اخبارات و ٹیلی ویژن نے قومی ہیرو کے طور پر خبریں اور تجزئیے دینے شروع کردئیے۔ عالمی میڈیا میں شور مچ گیا کہ اک ایسی بچی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی جو بچیوں کے حقوق اور تعلیم کیلئے جرأت سے آواز اٹھارہی تھی وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کی صحت یابی کیلئے قومی اسمبلی سے لے کر پاکستان بھر کے سکولز میں سرکاری طور پر دعائیں کروائی گئیں۔ عام آدمی کیلئے، سوات کے باسیوں یا پھر بی بی سی سننے پڑھنے والوں جہاں ملالہ نے گل مکئی نام سے خطوط رکھے تھے یہ حیرت انگیز واقعہ تھا۔
ملالہ یوسفزئی کے زخمی ہونے اورپھر علاج کیلئے برطانیہ منتقل ہونے تک پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے اسے تواترسے نمایاں ترین خبر کے طور پر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور مذمت کا طوفان برپا رہا اورپاکستانی حکومت اور اداروں پر بین الاقوامی دباؤ مزید بڑھ گیا تھا۔ وہ دہشتگردی اور امن وامان پر قابو پانے میں ناکامی پر مزید اقدامات کرے وغیرہ وغیرہ۔ خصوصاً بچیوں کی تعلیم اور ان کے تحفظ کیلئے پالیسی سخت کرے۔
ویسے تو دنیا میں ہر روز تشدد اور فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں مگر ملالہ یوسفزئی کے واقعہ پر عالمی سطح پر غیر معمولی ردعمل پر پاکستان کے اندر اور بیرون ملک تقریباً 5 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستانیوں کا ردعمل ایک سا نہیں ہے۔ بہت سے خدشات اور سوالات بدستور اس واقعہ اور اس کے بعد کی ’’ٹریٹ منٹ‘‘ جو برطانیہ کے ذریعے ملالہ کو امریکہ، یورپ اور کینیڈا میں ملی ہے، گردش کررہے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اس کی پوری زندگی اور معاملات بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ملالہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ کہاں اس کی جان لینے کی کوشش ہوئی اور کہاں اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی۔یوں کہیے کہ اس کی ’’لاٹری‘‘ نکل آئی۔ 2014ء میں اسے امن کا نوبل انعام بھی مل گیا۔ اس امریکی صدر سمیت عالمی رہماؤں سے ملاقاتیں، بڑے عالمی ذرائع ابلاغ پر اس کے انٹرویوز اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے اور حکومتوں کی جانب سے مالی امداداور گرانٹ نے اس کے ملالہ فنڈ میں خطیر رقوم جمع ہوگئیں۔
گزشتہ ماہ ملالہ یوسفزئی کوکینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوہ پارلیمنٹ ہلز میں سرکاری تقریب منعقد ہوئی جہاں ملالہ یوسفزئی جو اب 19 سال کی ہیں تو کینیڈا کی اعزازی شہریت دی گئی۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ملالہ کو یہ اعزازی شہریت دی۔ وہ پورا وقت اس تقریب میں موجود رہے۔ اوٹاوہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے طارق عظیم وہاں سرکاری طور پر نمائندگی کیلئے موجود تھے۔ کینیڈا کے صوبہ مینی ٹوبہ کے دارالحکومت ونی پیگ میں ساؤتھ ایریا میں ایک آبادی میں واقع پارک کو ’’ملالہ پارک‘‘ کا نام بھی دیا جاچکاہے۔ جس کے بارے میں ارددگرد رہنے والوں کو بالکل علم نہیں ہے کہ یہ ملالہ کون ہے؟ لیکن وہاں پاکستانی کمیونٹی کے چند افرادکی درخواست پر سٹی نے اس چھوٹے سے نئے پارک کو ملالہ کے نام سے منسوب کردیا تھا۔
کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ملالہ یوسفزئی کی پذیرائی پر ردعمل منقسم ہے۔ بعض اسے پاکستان کا اعزاز اور نیک نامی قرار دیتے ہیں اور ایک بڑی تعداد کا خیال یہ بھی ہے کہ بعض ادارے اور تنظیمیں ملالہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے اسے استعمال کریں گی۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ملالہ کی متنازعہ شخصیات جن میں سلمان رشدی اور تسلیما نسرین وغیرہ سے ملاقاتوں اور تشہیر کا جوازکیاہے۔ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور دیگر ممالک مین ملالہ کی دیکھ بھال اور پروٹوکول ’’اللہ واسطے‘‘ نہیں ہے ۔اس کی قیمت وصول کی جائے گی اور بعض کا خیال اور موقف ہے کہ اسے پاکستان میں سیاست اور حکومتی عہدوں کیلئے تیارکیا جارہا ہے اور وقت آنے پر اسے ’’پلانٹ‘‘ کیا جائے گا۔ جیسا کہ ماضی میں مشرف سیٹ اپ میں معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے افراد نے اعلیٰ افراد نے اعلیٰ عہدوں کے مزے لوٹے ہیں۔
ہر شخص واقعے اور معاملات سے متعلق ہر کسی کو اپنے رائے دینے اور اختلاف و خدشات کے اظہار کا حق حاصل ہے مگریہ وقت ہی بتائے گا کہ ملالہ بیرون ملک اپنے عالمی کردار اور تنظیم کو چلاتے ہوئے پاکستان آکر کوئی کردار اداپائے گی یا نہیں۔؟
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔