وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس سے ناراض کیوں؟

وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس سے ناراض کیوں؟
وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس سے ناراض کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے جب سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اورپنجاب میں امن وامان کے حوالے سے جتنے بھی اجلاس کیے ہیں کسی ایک اجلاس میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے پنجاب پولیس کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں سراہا ہو۔ ہمیشہ مختلف ایشو پر بات کی جاتی ہے کسی پر افسران کو ڈانٹ پڑ جاتی ہے اور کئی ایشو پر انہیں افسوس کے ساتھ شرم کا بھی کہا جاتا ہے۔البتہ کئی ایسے ایشو بھی چل رہے ہوتے ہیں جن پر کام اچھا ہوا، وہاں ہلکی سی شاباش کیساتھ دیگر خرابیوں پر کلاس شروع ہوجاتی ہے۔آخری اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ جرائم زیادہ ہوں تو عوام حکومت کی ریفارمز وڈویلپمنٹ بھول جاتی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی خواہش ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں ایسے اقدامات کرجائیں کہ عوام انہیں مدتوں یاد رکھے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک صوبہ بھر میں امن وامان کی خراب صورت حال بہتر نہیں ہو گی اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ صوبہ بھر میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی نظر آنی چاہیے۔ان کی اس گفتگو سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ صور حال سے مطمئن نہیں ہیں ان کی یہ ذہن سازی کی گئی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ جرائم کی شرح کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے بہتر ہوگا کہ اس سیٹ اپ کو تبدیل کرکے نئی ٹیم کو موقع دیا جائے ایک تو اس ٹیم کو کام کرتے ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ویسے بھی ہر وزیر اعلیٰ اپنی نئی ٹیم میدان میں اتارتا ہے جو اس کی گڈ گورننس کا باعث بنتی ہے موجودہ ٹیم پر سیاست ذدہ ہونے کا الزام ہے اور ان افسران کو تعیناتی بھی نگران دور میں دی گئی ہے۔بہت سارے ایسے افسران جو یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ میاں نوازشریف کی پنجاب میں حکومت بننے کے بعد انہیں بھی کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ان کی جانب سے میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ پیغام بار بار بھجوائے جارہے ہیں۔ پولیس کرائم کنٹرول کرے، حقائق سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں، وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس انہیں جو حقائق بتا رہی ہے وہ ان سے کسی صورت بھی اتفاق نہیں کررہیں پنجاب پولیس اپنے طور پر سب اچھا کی رپورٹ پیش کررہی ہوگی لیکن وہ ان کی رپورٹس سے مطمن نہیں ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا پولیس افسران سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پولیس باتیں سنانے کی بجائے کام کرکے دکھائے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ بھر میں کرائم ریٹ کو ہر صورت نیچے لانا چاہتی ہیں اس کے لیے انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کون کام کررہا ہے یاکون کس کے کہنے پر تعینات ہوا ہے بظاہر ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ اگر صوبہ بھر میں اگلے اجلاس تک جرائم کی شرح میں واضح کمی نہ آئی تو پھر وزیر اعلیٰ پنجاب موجودہ افسران کے حوالے سے سخت فیصلے بھی کرسکتی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ افسران اپنے بچاؤکے لیے صوبہ بھر میں امن وامان کی خراب صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کونسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ صوبے بھر میں کرائم ریٹ کو ہر صورت نیچے لانا ہوگا،ٹریفک وارڈن کی موجودگی میں روڈ بلاک ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور ٹریفک پولیس کے حوالے سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ٹریفک وارڈن کی موجودگی میں روڈ بلاک ہونے پر سی ٹی او پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کی خواہش کے مطابق اگر لاہور میں بے ہنگم ٹریفک پر قابو نہ پایا گیا تو سی ٹی او عمارہ اطہرکو تبدیل ہونے سے آئی جی پولیس بچا نہیں پائیں گے۔ پولیس قربانی بھی دے رہی ہے، مگر کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی نظر میں پنجاب پولیس شہدا کی وارث ہے اور عوام کی جان ومال کے تحفظ کی خاطر اپنی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتی،مگر اس فورس میں وہ افسران بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارہ بدنام ہورہا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب اس فورس کو کرپٹ افسران سے پاک کرنے کا عذم لے کر آئی ہے اور یقیناوہ ان افسران کی لسٹیں بھی حاصل کررہی ہے جو کرپشن میں ملوث ہیں اس کا مطلب ہے کہ عوام کو بہت جلد کرپٹ افسران سے چھٹکارا ملنے والا ہے۔ پولیس کے ساتھ ہوں، یونیفارم پہن کر اظہار یکجہتی کیا،اس کا مطلب ہے مجھے پولیس والوں سے نفرت نہیں ہے میں نے خود بھی یونیفارم پہن کر فورس کو اعتماد دیا ہے کہ اگر آپ اچھے کام کریں گے تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔پولیس کو پورے وسائل مہیا کررہے ہیں تاکہ کارکردگی میں کمی نہ آئے،اس کا مطلب ہے پولیس جو مانگ رہی ہے حکومت تمام تر مسائل کے باوجود انہیں وسائل مہیا کررہی ہے اگر وسائل موجود ہونے کے باوجود کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو پھر کسی کو معافی نہیں ملے گی۔کرپشن کے خاتمے کے لئے پولیس میں کارکردگی کے تجزیے اورجانچ کانظام لارہے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس کی جانب سے وضع کیے گئے نظام سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہیں وہ چیک اینڈ بیلنس کا اپنا نظام لانا چاہتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے بظاہر ان کے ارادے کسی کے خلاف بلاوجہ کارروائی نہ کرنے کے ہیں لیکن جس عزم کا انہوں نے اظہار کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد سب کی چھٹی ہونیوالی ہے۔اجلاس کے دوران لاہور پولیس کی بہتر کارکردگی اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کے پیش نظر وزیر اعلیٰ پنجاب کا غصہ قدرے ٹھنڈا رہا لیکن ٹریفک کی بدحالی پر وہ سخت غصے میں بھی نظر آئیں مگر لاہور میں ڈی آئی جی عمران کشور کی جانب سے ڈرگ مافیا کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی ناراضگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔خبر ہے کہ پنجاب حکومت سی پی او فیصل آباد کے لیے ڈی آئی جی عمران کشور کو تعینات کرنے کی خواہاں تھی مگر سی سی پی او لاہور اور آئی جی پولیس نے ان کی بہتر کارکردگی کے پیش نظر انہیں لاہور میں ہی رہنے کی سفارش کی۔ڈی آئی جی کامران عادل کی بطور سی پی او فیصل آباد تعیناتی میں بھی عمران کشور نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ورنہ وہاں کسی اور آفیسرز کو تعینات کیے جانے کا امکان تھا۔ صوبہ بھر کے افسران کی کارکردگی کا جائزہ لینا کے لیے وزیر اعلی پنجاب نے ہنگامی بنیادوں پر سپیشل برانچ کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ذوالفقار حمید سمیت مختلف خفیہ ایجنسی سے رپورٹس طلب کی ہیں۔ان رپورٹس کی روشنی میں مزید افسران کے تبادلوں کاامکان ہے۔

مزید :

رائے -کالم -