معاشی بہتری اور انتشاری تحریک کی حکمت عملی

   معاشی بہتری اور انتشاری تحریک کی حکمت عملی
   معاشی بہتری اور انتشاری تحریک کی حکمت عملی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حکمران،ہمارے حکمران، اپنے حق ِ حکمرانی کو مستحکم بنانے کے لئے آئینی اور قانونی کاوشیں کر رہے ہیں انہیں کامیابیاں بھی مل رہی ہیں،26ویں آئینی ترمیم پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد نافذ العمل بھی ہو چکی ہے، معاملات حکمرانوں کی منشاء کے مطابق طے بھی پا رہے ہیں، اصلی مسودے میں جو چیزیں رہ گئی تھیں یا مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے دوران جن شقوں کو نکال دیا گیا تھا ان شقوں کو27ویں ترمیم کے مسودے میں ڈال کر منظورکرانے کی بجائے اُنہیں ایک بل کی شکل میں پارلیمان سے منظورا کرا لیا گیا ہے۔آرمی چیف سمیت تینوں سروسز چیف کی مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17سے بڑھا کر 34 کر دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن نے خوب ہنگامہ آرائی کی، نعرے بازی کی،ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں، لیکن حکومت نے کثرتِ رائے سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل بھی منظور کرا لیا۔ان ترامیم کے لئے حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا۔مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بات چیت نہیں کی،مذاکرات کا ڈول نہیں ڈالا،اپنی اکثریت کو بروئے کار لاتے ہوئے بل منظور کرا لئے۔

ویسے26ویں آئین ترمیم کے وقت حکومت نے جو حکمت عملی اپنائی وہ کامیاب بھی رہی  اور مکمل طور پر  ناکام بھی نہیں ہوئی،کامیاب اس طرح کہ26ویں آئینی ترمیم منظور کرا لی بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو حکومت کے ہاتھ آئی ہے، لیکن حکومت کے تیار کردہ مسودے کا جو حال ہوا،وہ بھی ایک مکمل کہانی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے مذاکرات کے ذریعے خوب داد سمیٹی،سلسلہ جنبانی کے دوران وہ قومی سیاسی منظر پر چھائے رہے۔آصف علی زرداری سے لے کر نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو اور تمام قومی سطح کی سیاسی قیادت ان کا طواف کرتی پائی گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کو بھی اپنے ساتھ اور اپنے پیچھے لگائے رکھا۔ترمیم کے مسودے پربات چیت اور اسے فائنل کرنے کے لئے جو پارلیمانی کمیٹی بنی تھی اس میں پی ٹی آئی اے کے نمائندے بھی شامل تھے۔حکومت نے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بات چیت کا ڈول ڈالا۔مولانا فضل الرحمن کو منانے کی انتھک کاوشیں کی گئیں، مولانا مان گئے۔ مولانا نے حتمی بل کے حوالے سے جو پریس کانفرنس کی اس میں پی ٹی آئی کی قیادت بھی موجود تھی، گویا ابس مسودے کے مندرجات سے پی ٹی آئی بھی متفق تھی، کمیٹی کے دس اجلاس ہوئے، جس کے نو اجلاسوں میں پی ٹی آئی کی نمائندگی ہوئی،مسودے سے اتفاق رائے ہوا،لیکن عمران خان سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی تمام معاملات سے پھر گئی۔ انہوں نے اتفاق کرنے کے باوجود اتفاقِ رائے میں شرکت نہیں کی۔پارلیمان میں وہی مسودہ پیش کیا گیا جس پر مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی نے اتفاق کیا۔وہی ترمیم منظور ہوئی،لیکن پی ٹی آئی حسب ِ عادت اور حسب ِ سابق مُکرگئی۔پی ٹی آئی اپنے اہداف کا تسلسل سے پیچھا کر رہی ہے اور اسے بہت سے اہداف حاصل بھی ہو چکے ہیں سب سے بڑا ہدف انتشار  اور افتراق کا ہے اس میں پی ٹی آئی نے شاندار کامیابی حاصل کر لی ہے۔ پی ٹی آئی ہر اس کام کی مخالف ہے جو اتحاد و یکجہتی کے فروغ کا باعث بنتا ہے پی ٹی آئی اے نے پوری ایک نسل کو افتراق و انتشار پھیلانے میں لگا دیا ہے۔ریاست ہو یا حکومت ہر جگہ انتشار زدہ ہو چکی ہے۔ معاشرہ زیر و زبر ہو چکا ہے قومی اسمبلی ہو یا سینیٹ حکومت میں صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت باہم دست و گریبان ہیں۔عدلیہ کو ہی دیکھ لیں، جج اپنے حلف کے مطابق ایکٹ کرنے کی بجائے پسند و ناپسند کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ کسی مسئلے پر بینچ کے ممبران کو دیکھ کر متوقع فیصلے کے بارے میں  ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ ہو یا ہائیکورٹس، ہر جگہ انتشار پایا جاتاہے۔ہماری سپریم کورٹ میں تو دو دھڑے معروف ہیں حکومت آئینی ترمیم کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کا چیف بننے کا راستہ روک چکی ہے لیکن آپ دیکھ لیں جسٹس منصور علی شاہ اور منیب احمد اس کے بعد کس طرح کا رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں ان کا رویہ بالکل انصافی بھائیوں کے انتشاری رویوں سے مماثلت رکھتا ہے وہ جسٹس آفریدی کو ناکام بنانے کی پالیسی پرگامزن ہو چکے ہیں جو اجلاس چیف نے بلانا تھا ان کی غیر موجودگی میں جسٹس شاہ اور منیب احمد نے خود بُلا کر فیصلہ  کیا اور اب اس فیصلے کے مطابق فل کورٹ بنانے اور 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست کی سماعت پر  زور دے رہے ہیں۔ان کا رویہ بالکل اپنی پسندیدہ پارٹی کے جیالوں جیسا ہے وہ سپریم کورٹ کا تقدس تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جس طرح انصافی کہتے ہیں کہ ”خان نہیں تو پاکستان نہیں“ بالکل اسی طرح انصافی ججوں کا رویہ ہے کہ ”ہم نہیں تو سپریم کورٹ نہیں“۔کیا یہ تحریک  انصاف کی کامیابی نہیں ہے کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں بھی انتظار فروغ پا چکا ہے؟

جہاں تک حکومتی اقدامات کا تعلق ہے وہ بظاہر کامیاب نظر آتاہے اس حد تک کامیابی تو ہو رہی ہے  جس حد تک حکمران کچھ کرنا چاہتے ہیں۔26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے انہوں نے اپنی گرفت مضبوط بھی کر لی ہے،لیکن مولانا اور تحریک انصاف کو راضی کرنے کے عمل کے دوران حکومتی  مسودے کی بہت سی شقیں ختم ہو گئی تھیں، موجودہ ترامیمی بلوں کی منظوری کے ذریعے پورا کر  لیا گیا ہے۔یہ بھی حکومتی کامیابی ہے حکومت جو کرنا چاہ رہی ہے وہ کرنے کی آئینی و قانونی سبیل حاصل کر رہی ہے۔بظاہر معاملات حکومت کے حق میں جارہے ہیں،لیکن انتشاری ٹولہ آزادی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر کام کرتا چلا جا رہا ہے۔ انتشاری ٹولے کا شہ دماغ جیل میں بیٹھ کر بڑی یکسوئی کے ساتھ، تمام مراعات کے ساتھ،اپناکام کرتا چلا رہا ہے وہ جیل میں بیٹھ کر اپنا ٹویٹر ہینڈل بھی چلارہا ہے، یعنی اس کا ہینڈل جہاں کہیں بھی ہے انتشاری لیڈر کی ہدایات کے مطابق فسادی ایجنڈے کو پروان چڑھا رہا ہے۔ اپنی پارٹی بھی چلا رہا ہے یہ کون سی جیل ہے یہ کون سا قانون ہے کہ ایک سزا یافتہ مجرم کو پارٹی چلانے میں بھی سہولیات دستیاب ہیں اس کی پارٹی کے لوگ اس سے ہدایات لیتے ہیں اس کی منشاء کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور فیصلے تبدیل بھی کر دیتے ہیں۔مصالحت کی بات  چیت بھی کرتے  ہیں اور پھر طے شدہ امور اور فیصلوں سے مُکر بھی جاتے  ہیں۔پارٹی ہینڈل جیل  میں بیٹھا ہینڈل چلا رہا ہے اور اس کا ایک ہی منشا ہے کہ قومی یکجہتی کا ستیاناس کر دیا جائے وہ ایسا کرنے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔

ہماری معیشت اب کسی نہ کسی حد تک نہ صرف مشکلات سے نکل آئی ہے یا نکل رہی ہے،بلکہ بہتری کی طرف جانے لگی ہے، شرح سود میں 2.5فیصد کمی ایک بڑا اشاریہ ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، سرمایہ کاری ہونے لگی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورتحال میں بہتری ہو رہی ہے ایسے میں تحریک انتشار نے ملک گیر جلسوں اور مظاہروں  کا اعلان کر دیا ہے انہیں ملکی و قومی بہتری ایک آنکھ تو کیا بند آنکھوں سے بھی بھاتی نہیں ہے وہ ہر ایسا  اقدام اٹھا رہے ہیں، جس سے عدم اطمینان پھیلے۔ہمارے حکمران کیا کرتے ہیں؟

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -