خوش ذائقہ کھانے اوربسیار خوری کا خمار پوری طرح اثر دکھا چکا، مہمان اپنی نشستوں یعنی عرش سے فرش پر اتر آئے تھے، خواتین نے یہاں بھی وقت برباد نہ کیا

 خوش ذائقہ کھانے اوربسیار خوری کا خمار پوری طرح اثر دکھا چکا، مہمان اپنی ...
 خوش ذائقہ کھانے اوربسیار خوری کا خمار پوری طرح اثر دکھا چکا، مہمان اپنی نشستوں یعنی عرش سے فرش پر اتر آئے تھے، خواتین نے یہاں بھی وقت برباد نہ کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:22
بات دور نکل گئی۔ خیر، اس کے بعد چائے اور کافی کا دور چلا اور پھر وہ پیتے ہی چلے گئے۔ خوش ذائقہ کھانے اور پھربسیار خوری کا خمار اب پوری طرح اپنا اثر دکھا چکا تھا اور زیادہ تر مہمان اپنی نشستوں سے یعنی عرش سے فرش پر اتر آئے تھے اور اب نیچے بچھے ہوئے قالین پر تقریباً لیٹے ہوئے اک عالم مد ہوشی میں کسی بیمار مرغ کی طرح آنکھیں کھول اور بند کر رہے تھے۔ خواتین نے البتہ یہاں بھی وقت نہ برباد کیا اور مسلسل اپنی روزمرہ کی سیاست چمکاتی رہیں۔
رات کوئی 11 بجے میری درخواست پر ان کا ڈرائیور ایک بار پھر مجھے میرے ہوٹل کی لابی تک پہنچا گیا۔ میں بھاگ کر لفٹ میں داخل ہوا اور اس چھوٹے بچے کا انتظار کرنے لگا جس نے آکر بٹن دبانا تھا اور اس کے بدلے بخشش وصول کرنا تھی۔ وہ تو نہ آیا، ہاں ایک نیم برہنہ مصری حسینہ اچانک ایک طرف سے نمودار ہوئی اور لفٹ میں داخل ہوگئی۔ وہ وہاں کے مشہور مصری بیلے ڈانس والے ادھورے سے لباس میں تھی اور اس نے اپنی اوقات اور ضرورت سے بڑھ کر میک اپ کیا ہوا تھا۔پھیلا ہوا کاجل اس کی بڑی بڑی حسین اور سیاہ مصری آنکھوں کو کچھ اور بھی نمایاں کر رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر ٹکا کے آنکھ ماری اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں شام بخیر بھی کہہ دیا اور پھر دسویں منزل کا بٹن دبا دیا۔ جب کہ مجھے ذرا پہلے اترنا تھا۔ اس نے لفٹ میں لگے ہوئے بڑے سے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا اور اپنے بناؤ سنگھار کا تنقیدی نظروں سے مختصر سا جائزہ لیا اور ہولے ہولے عربی کا کوئی نغمہ گنگنانے لگی اور ساتھ ہی ہلکا پھلکا سا تھرکنا بھی شروع کر دیا تھا۔ اس نے اسی عالم وجد میں بتایا کہ وہ اوپر نائٹ کلب میں بیلے ڈانسر ہے۔ اس نے مجھے اس شو میں آنے کی دعوت بھی دی۔ میں نے احمقوں کی طرح اثبات میں سر ہلایا اور اپنی منزل آنے پر اسے معہ السلامہ کہتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔ کچھ دیر بعد ہی اوپر رقص و موسیقی کی ہلکی ہلکی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جو پو پھٹے تک جاری رہنا تھیں۔ لیکن میں تو سارے دن کا تھکا ہارا تھا اس لئے بستر پر لیٹتے ہی سو گیا۔
اگلے روز جب میں استقبالیہ کے پاس سے گزرا تو ہال کے ایک کونے میں اسی رقاصہ کی چند قد آدم تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ بعد میں پتہ لگا کہ یہاں کے تقریباً ہر اچھے اور بڑے ہوٹلوں میں اس قسم کی شب بیداری کا اہتمام اسی جوش و خروش سے کیا جاتا ہے اور ایسی محفلوں کو اس معاشرے میں بُرا یا ناپسندیدہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا،بلکہ وہاں کے معزز اور شرفاء اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ایسی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے کتھک ناچ کی طرح یہ بھی ان کا مقبول کلاسیکل ناچ مانا جاتا ہے، جس کو دیکھنے پر کوئی بھی اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں کرتا۔
میں بڑی حیرانگی سے مصریوں کی روزمرہ زندگی کے تضادات دیکھ رہا تھا۔ اگر ایک طرف ان کی خواتین مکمل حجاب کی حالت میں باہر نکلتی تھیں تو دوسری جانب انتہائی جدید انداز، نامناسب اور ادھورے کپڑوں میں ملبوس مغرب زدہ عورتیں بھی تھیں جو بازاروں میں سر عام تمباکو نوشی کرتی ہیں اور ساتھی مردوں کے شانہ بہ شانہ قہوہ خانوں میں اٹھتی بیٹھتی نظر آتی ہیں۔کوئی ان باتوں پر ناک بھوں نہیں چڑھاتا اور نہ ہی ان کو فتنہ وفساد کی بنیاد بنا کر ان  پر کفر کے فتوے جاری کرتا ہے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -