اطلاعات تک رسائی

اطلاعات تک رسائی
 اطلاعات تک رسائی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ریاستی ادارے جو عوام کے پیسوں سے چلتے ہیں وہ عوام کو جوابدہ بھی ہوں۔ موجودہ نظام حکومت میں برطانوی سامراج کی جھلک کئی برسوں کے بعد بھی نظر آتی ہے اِس لئے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس میں مثبت تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔برطانوی سامراج کا بنایا ہوا نظام دراصل حکمرانی اور دنیا کو اپنا محکوم بنانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ افسر شاہی اس ہی نظٓم کی ایجاد ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آزادی کے 70سال بعد بھی ہم افسر شاہی کو Public Servantsنہیں بنا سکے اور وہ اب بھی اپنے آپ کو لوگوں کا حاکم سمجھتے ہیں۔ بہرحال حکومتِ پاکستان کی طرف سے پیش کردہ حق معلومات، یعنی Right to Informationکا جو بل پیش کیا گیا ہے وہ روشنی کی نوید ہے، جس سے عوام کو با اختیار اور حکومت اور حکومتی مشینری کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا گیا ہے۔ آئیے اس بل کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کاوش کس طرح بہتری کی جانب لے جائے گی۔


قارئین کرام اس بل کے تحت، جس کی تائید تمام جماعتوں نے کی، کوئی بھی شہری ایک درخواست دے کر اور مناسب سی فیس جمع کروا کے کسی بھی سرکاری ادارے کے متعلق معلومات حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عوام کو اس بات کا اختیار دیا جا رہا ہے جبکہ مہذب قوموں میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام الناس سرکاری عہدیداروں سے حساب لے سکیں۔ حکومت پاکستان کے اس اقدام کے تحت جن چیزوں کی معلومات عوام الناس کو فراہم کرنا سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہو گی ان میں کسی بھی ادارے کی پالیسیاں، رہنما اصول اور ضابطے، اثاثہ جات کی تفصیل، اخراجات، ذمہ داریاں اور معاہدے وغیرہ شامل ہیں۔


اس بل کی بنیاد معروف اصول ہے، جس کو انگریزی زبان میں کچھ اس طرح کہا جا سکتا ہے۔ Maximum disclosure, minimum exemptions and the right to appealیعنی معلومات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی کو یقینی بنانا اور عوام کو فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا۔دراصل اس فیصلے سے عوام اپنے اندر ایک طاقت محسوس کرتے ہیں اور ان میں آزاد اور با اختیار ہونے کا شعور پیدا ہو چکا ہے۔ اب تک ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ کسی بھی حکومتی ادارے کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا ایک کٹھن اور دشوار عمل ہے، لیکن اس بل کے تحت یہ کام انتہائی آسان ہو گیا ہے جو کہ انتہائی خوشگوار طریقے سے سر انجام دیا جا سکتا ہے، یعنی کہ کسی بھی حکومتی ادارے کے فیصلے کے خلاف 30دن کے اندر اپیل کی جا سکتی ہے تاکہ نظر ثانی کی جا سکے۔


پاکستان جغرافیائی طور پر تو سات دہائیاں پہلے آزاد ہو گیا تھا ،لیکن بہت سے ایسے قوانین اور ضابطے ہیں جن سے غلامی کی بو آتی ہے۔جمہوریت کے بہت سے ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ادارے ان بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ بنا رہے ہیں۔ اس اقدام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ خصوصاً مالی معاملات میں کرپشن کا سد باب کیا جا سکے گا۔ بہت سے ایسے ادارے ہیں خصوصاًland revenueلینڈ ریوینیو سے متعلق،جہاں مالی بدعنوانیاں بے پناہ ہیں مالی کرپشن کی ایک شکل من پسند لوگو ں کو ٹھیکے دینا بھی ہے۔ طریقہ کار یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ اپنا حصہ رکھ کر من پسند لوگوں کو خلاف ضابطہ ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ اس بل کے تحت کوئی بھی شہری ان ٹھیکوں اور مالی ادائیگیوں کی تفصیلات حاصل کر سکتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کا حق بھی رکھتا ہے۔ البتہ فوجی ادارے، ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے تمام مالی امور اس بل میں شامل نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مخصوص حلقہ چیخ چیخ کر یہ پکار رہا ہے کہ فوج کو بھی اس بل میں شامل کیا جائے تاکہ انکا احتساب بھی کیا جا سکے تو اس ضمن میں دو گزارشات بہت اہم ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ فوج کا ایک انتہائی احسن اور فعال نظام احتساب ہے، جس میں کرپشن سے بچ نکلنا نا ممکن ہے۔ ہمیں یاد ہو گا کہ جنرل راحیل کے دور میں کچھ اعلیٰ فوجی افسران پر مالی بد عنوانی کے الزامات تھے جن کا تعلق گاڑیوں کی سمگلنگ سے تھا۔ تو نہ صرف ان کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا،بلکہ ان کی تفصیلات میڈیا کے سامنے بھی رکھی گئیں۔


دوسری اہم بات یہ ہے کہ دفاعی معاملات میں معلومات کو خفیہ رکھا جاتا ہے، کیونکہ دفاعی اخراجات اپنے اندر ایک پیغام رکھتے ہیں اور ہمارے دشمن کو ایسی معلومات فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جمہوریت کے راستے پر ہماری رفتار تو ابھی زیادہ نہیں ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ثمرات نمایاں ہو رہے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور حقیقی ترقی کے لئے جمہوریت ناگزیر ہے۔

مزید :

کالم -