فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر512
چند سال قبل اسلام آباد کے ٹیلی ویژن سینٹر سے ایک ڈراما سیریز’’گیسٹ ہاؤس‘‘ پیش کی جاتی تھی۔ یہ ایک پرائیویٹ ہوٹل نما گیسٹ ہاؤس کی کہانی تھی جس میں گنے چنے کردار مستقل حیثیت رکھتے تھے۔ ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک تھے جو خاصے سنجیدہ اور رکھ رکھاؤ والے درمیانی عمر کے آدمی تھے۔ یہ تعلیم یافتہ بھی تھے۔ اچھی شخصیت کے مالک تھے۔ بلند قامت، گورا رنگ، مناسب نقش و نگار۔ یہ اس گیسٹ ہاؤس کے مالک تھے اور سیریز کی ہر قسط میں ان کی موجودگی لازمی تھی۔ اس سیریز میں ہر بارایک نئی کہانی پیش کی جاتی تھی مگر مرکزی کردار ہر ڈرامے میں نظر آتے تھے۔ مالک کی ایک بیگم بھی تھی۔ یہ بھی ایک سمجھ دار اور معقول خاتون تھیں لیکن کہانی کے مطابق مزاحیہ کردار میں بھی نظر آجاتی تھیں۔یہ کردار ثروت عتیق کے سپرد تھا جو ریڈیو کی ایک نامور فنکارہ تھیں۔ بعد میں اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں بھی انہوں نے کام کیا جن میں سب سے زیادہ مقبولیت ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ کو حاصل ہوئی۔ ہر قسم کے کردار بہت عمدگی سے اداکرتی تھیں۔ ڈرامے میں یہ ایک کامیاب جوڑا تھا جو اولاد سے محروم تھا۔ میاں بیوی میں اچھی خاصی انڈر اسٹینڈنگ تھی مگر بعض ڈراموں میں کہانی کی ضرورت کے مطابق آپس میں غلط فہمی بھی ہو جاتی تھی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر511پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس ڈرامے میں ایک منیجر تھا۔ یہ بالکل نئے اداکار تھے مگر انہوں نے بہت اچھا کام کیا تھا۔ بعض اوقات استقبالیہ پر ایک لڑکی بھی نظر آتی تھی۔ اس کردار کے فنکار بدلتے رہتے تھے۔ ایک پولیس انسپکٹر بھی تھا جو بعض ڈراموں میں نظر آتا تھا۔ یہ موٹا سا دلچسپ پولیس افسر بھی اچھا اداکار تھا لیکن ڈرامے کے مستقل کرداروں میں سب سے زیادہ دلچسپ کردار جان ریمبو کا تھا۔ یہ ایک نوجوان شخص تھا جو ہوٹل میں صفائی کرنے پر مامور تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہمیشہ جھاڑو یا صفائی کرنے کا کپڑا ہوتا تھا۔ سر پر ایک رومال بندھا ہوتا تھا۔ یہ ایک ان پڑھ کردار تھا جو فلمی اداکار بننے کا شوقین تھا۔ اس زمانے میں ہالی وڈ کے کردار جان ریمبو کا بہت چرچا تھا۔ ریمبو بھی اسی سے متاثر تھا اور ہوٹل میں آنے والے ہر مہمان کو اپنا نام جان ریمبو بتاتا تھا۔ یہ عام زندگی میں بھی داکاری کرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات بہت دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی تھی۔
’’گیسٹ ہاؤس‘‘ میں ہر بار ایک نئی کہانی پیش کی جاتی تھی مگر مذکورہ بالا کردار ہر ڈرامے میں موجود ہوتے تھے۔ ریمبو اس ڈرامے کا سب سے دلچسپ اور مستقل کردار تھا۔ یہ عجیب و غریب حلیئے میں رہتا تھا۔ میلا سا نیکر اور قمیص یا جرسی، پیروں میں چپل یا ننگے پیر، سر پر ایک میلا اور گندہ سا رومال۔ ہاتھ میں جھاڑو یا بالٹی۔ یہ دراصل ایک جمعدار کا کردار تھا اور یہ طبقہ کام کے اوقات میں عموماً اسی حلیئے میں رہتا ہے ۔البتہ کام سے فارغ ہونے کے بعد صاف ستھرا لباس پہن کر ان کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے مگر جان ریمبو کو اجلا اور صاف ستھرا لباس پہننا بہت ہی کم نصیب ہوتا تھا۔
ریمبو دیکھنے ہی میں ایک صفائی کرنے والا شخص نظر آتا تھا۔ اس کے مکالمے بھی اس ان پڑھ کردار کے مطابق ہی ہوتے تھے۔ ایک قابل تعریف بات یہ ہے کہ ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ کو مختلف مصنفین نے لکھا ار مختلف ہدایت کاروں نے اس کی ہدایت کاری کے فرائض سر انجام دیئے لیکن تمام مستقل کرداروں کے حلیئے ، بول چال اور عادات و اطوار میں کبھی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ مصنف کی خوبی تھی۔ ہدایت کار کی سوجھ بوجھ کا نتیجہ تھا یا کہ خود اداکاروں کی ذاتی توجہ، دلچسپی اور کاوش کا سبب تھا۔بہرحال یہ ایک قابل ذکر اور قابل تعریف خوبی تھی۔ یہ ڈراما طویل عرصے تک چلتا رہا۔ اس میں معروف اور غیر معروف ہر طرح کے فنکاروں نے مختلف کہانیوں میں اداکاری کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے اچھے، دلچسپ اور معیاری ڈرامے کو مڈیا میں اور نہ ہی ٹی وی کے حلقوں میں وہ پذیرائی مل سکی جس کا یہ مستحق تھا۔ اگر یہ کراچی یا لاہور سینٹر سے پیش کیا جاتا توہر طرف اس کا چرچا ہوتا۔ یہ ایک افسوسناک طرز عمل ہے جس میں تبدیلی ضروری ہے۔ اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور سے بھی محدود وسائل کے باوجود بہت اچھے بلکہ بعض اوقات کراچی اور لاہور کے ڈراموں سے بہتر ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں مگر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
’’گیسٹ ہاؤس‘‘ تو مناسب اوقات میں پیش کیا جاتا تھا مگر عام طور پر ان مراکز کے ڈرامے رات گئے پیش کئے جاتے ہیں۔ آخر اس ترجیحی سلوک کا کیا سبب ہے؟ ان ڈراموں کو پرائم ٹائم میں کیوں نہیں دکھایا جاتا؟ مزید ستم یہ ہے کہ انہیں زیادہ اشتہارات بھی حاصل نہیں ہوتے حالانکہ اس کے برعکس کراچی اورلاہور کے دوسری اور تیسری بار پیش کئے جانے والے ڈراموں میں بھی اشتہارات کی بہتات ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو اشتہارات کی کثرت دیکھنے والوں کو بیزار کر دیتی ہے۔ یہ پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے ٹی وی مراکز کے مارکیٹنگ کے شعبوں کی کوتاہی ہے یا کوئی اور وجہ یہ؟ بہرحال یہ سراسر نا انصافی اور حق تلفی کے مترادف ہے۔
یہ تو جملہ معترضہ سمجھ لیجئے۔ ذکر ہو رہا تھا ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ اور اسکے ایک نمایاں کردار ریمبو کا۔ ریمبو ہر مہمان اور ہوٹل کے کارکنوں یہاں تک کہ مالکوں تک سے بے تکلفی کا مظاہرہ کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا۔ گیسٹ ہاؤس میں آنے والے مہمانوں سے وہ زبردستی اپنا تعارف ان الفاظ میں کراتا تھا ’’میرا نام ہے ریمبو، جان ریمبو‘‘ پھر وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ کو پیشانی پر ڈال کر اداکارانہ پوز بنا کر کھڑاہو جاتا اور اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے آنے والوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اسکو فلم میں ہیرو بننے کا شوق بلکہ جنون تھا اسی لیے وہ حقیقی زندگی میں بھی ہر وقت اداکاری کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اسکو یقین تھا کہ ایک دن اس کے بھی دن پھرجائیں گے اور وہ ایک فلمی ہیرو بن کرشہرت اور دولت حاصل کرے گا۔ اس کا حلیہ طرز گفتگو اور شکل و صورت دیکھ کر اس مضحکہ خیز خواہش پر دیکھنے والے ہنسی اڑاتے تھے۔ اس کے ساتھی کارکن اس کومذاق کا نشانہ بناتے تھے مگر اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ’’ریمبو۔۔۔ریمبو۔۔۔جان ریمبو‘‘ ضرور بنے گا۔
’’گیسٹ ہاؤس‘‘ کا ٹی وی پروگرام کافی عرصے تک چلتا رہا کبھی اس میں بہت اچھے ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ کبھی ان کا معیار کچھ کم ہو جاتا تھا مگر جان ریمبو کا کردارہمیشہ جان دار ہی ہوتا تھا۔ اس میں خود ریمبوکی اداکاری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے یہ کردار اپنے اوپر طاری کر لیا ہے اسے اوڑھ لیا ہے۔ اسی کی زندگی کو اپنالیا ہے۔ وہ اس مضحکہ خیز احمقانہ کردار کو اس قدر خوب صورتی سے اداکرتا تھا کہ رفتہ رفتہ یہ کردار ایک حقیقی چلتا پھرتا، جیتا جاگتا انسان محسوس ہونے لگا۔
پھرایک روز ’’گیسٹ ہاؤس‘‘بندہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ’’ریمبو ریمبو، جان ریمبو‘‘ کو بھی بھول گئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ہالی وڈ کے جس اداکار سلویسٹر اسٹالون نے انگریزی فلم میں ریمبو کا کردار ادا کرکے عالمگیر شہرت حاصل کی تھی اورپھر اسکے بعد بھی کئی کامیاب ایکشن فلموں میں کام کیا تھا رفتہ رفتہ اس کی شہرت کا آفتاب بھی گہنا گیا۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)