کھیل ترقی اور اَمن کا پیامبر
ترقی اور اَمن کے لئے کھیلوں کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان مثبت تبدیلی کے فروغ، رکاوٹوں کے خاتمے اور سرحدوں سے ماورا ء اتحاد کے لئے کھیلوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کھیل قومی ترقی، نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت اُجاگر کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کھیلوں کو اپنے ترقیاتی ایجنڈے کا مرکزی ستون قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق حکومت کی قومی کھیل پالیسی نچلی سطح پر شمولیت،ٹیلنٹ کی تلاش، صنفی مساوات اور ہمہ گیری کو فروغ دینے پر مرکوز ہے، ارشد ندیم / شہباز شریف ہائی پرفارمنس اکیڈمی جیسے اقدامات کے ذریعے حکومت کا ہدف نوجوان کھلاڑیوں کو سائنسی بنیادوں پر تربیت، مالی معاونت اور جدید سہولیات کی فراہمی سے مستقبل کے چیلنجوں کے لئے تیار کرنا ہے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ حکومت اِس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بہتر انتظام ہی مضبوط کھیلوں کی بنیاد ہے اِس لئے وہ کھیلوں کی قومی فیڈریشنوں میں شفافیت، جوابدہی اور پیشہ ورانہ مہارت کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات متعارف کروا رہی ہے تاکہ ادارہ جاتی نظم و نسق کو بہتر بنایا جا سکے، کھلاڑیوں کے انتخاب میں میرٹ کو مقدم رکھا جا سکے اور کھیلوں کے میدان میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جا سکے۔ اُن کے مطابق ملک گیر تربیتی کیمپوں کے انعقاد سے لے کر 2026ء میں 14ویں ساؤتھ ایشین گیمز کی تیاری تک پاکستان خطے میں کھیلوں کی مہارت اور سیاحت کا مرکز بننے کے لئے پُرعزم ہے۔اُنہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سول سوسائٹی اور ترقیاتی شراکت داروں سے اپیل کی وہ تعلیم، صحت، ترقی اور اَمن سے متعلق پالیسیوں اور پروگراموں میں کھیل کو مؤثر انداز سے شامل کریں تاکہ نہ صرف کھیلوں کے نظام کو مضبوط بنایا جا سکے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے زیادہ جامع، بااختیار اور پائیدار معاشرہ تشکیل پائے۔
یاد رہے کہ ترقی اور اَمن کے لئے کھیلوں کا عالمی دن ہر سال چھ اپریل کو منایا جاتا ہے،اِس دن کومنانے کا مقصد دنیا بھر میں اَمن کے فروغ میں کھیلوں کے اہم کردار کو اُجاگر کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے 23 اگست 2013ء کو ہر سال 6 اپریل کو ترقی اور اَمن کے لئے کھیلوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا جو 1896ء میں ایتھنز میں پہلے جدید اولمپک گیمز کے آغاز کا دن تھا۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کافی عرصے سے کھیلوں کے عالمی دن پر زور دے رہی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کھیلوں کی رسائی فراہم کرنے کا اہتمام کیا جا سکے،اُس کا ماننا تھا کہ کھیل کو سماجی تبدیلی کے اہم عنصرکے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے اِس نے اقوامِ متحدہ کے ساتھ مل کر کئی منصوبوں پر کام کیا جو آج بھی جاری ہیں۔ رواں سال اِس دن کا موضوع ”سب سے زیادہ پسماندہ گروہوں کے ساتھ ساتھ عمر، جنس اور نسل پر توجہ کے ساتھ سماجی شمولیت“ تھا، اِس کا مقصد دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنا، مساوی مواقع کو فروغ دینا اور عمر، جنس یا نسل سے قطع نظر سب کو کھیلوں میں شامل کرنا ہے۔ یہ صرف کھیل کے کردار کو ایک متحدہ قوت کے طور پر اُجاگر ہی نہیں کرتا بلکہ کھیل تعصبات سے نبٹنے اور پوری دنیا میں مثبت تبدیلی کی تحریک کے لئے مکالمے کا ایک طاقتور پلیٹ فارم بھی ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اِس دن کے حوالے سے مختلف سپورٹس تنظیموں نے تقریبات کا اہتمام کیا جن میں اِس بات کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ کھیل تمام ثقافتوں میں خیر سگالی، صحت مندانہ مقابلہ اور تعاون کے حصول کا ایک مثبت طریقہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اِس سلسلے میں ایک عالمی تقریب کا اہتمام کیا۔ اولمپک گیمز ہوں یا دنیا بھر میں ہونے والے کھیلوں کے دیگر عالمی مقابلے، لگ بھگ دنیا کے سبھی ممالک اُن میں شرکت کرتے ہیں، حالات چاہے جیسے بھی ہوں زیادہ سے زیادہ ممالک کے کھلاڑی ان مقابلوں میں شامل ہوتے ہیں تاکہ اَمن کے فروغ کی اِس کاوش میں حصہ ڈال سکیں۔ کھلاڑی کا تعلق کسی بھی کھیل سے ہو اِسے اپنے ملک کا سفیر تصور کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے چند ایک ممالک ایسے بھی ہیں جو کھیل کی اِس روح کو سمجھ نہیں پاتے، اِس میں سیاست کو ترجیح دیتے ہیں، جیسے کہ بھارت نے حال ہی میں بہت کوشش کی کہ چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں نہ ہو سکے اور جب کوئی چارہ نہ بن پایا تو پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا اور اِس نے اپنے تمام میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلے۔ ماسوائے بھارت کے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیموں نے پاکستان میں میچ کھیلے، اُن کے کھلاڑی یہاں کرکٹ کھیل کر خوب لطف اندوز ہوئے، اُنہوں نے انتظامات سے لے کر مہمان نوازی تک کی ہر طرح سے تعریف کی لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ مودی حکومت کا آلہ کار بن کر اُس کی پالیسی پر چلتا رہا اور یہاں کرکٹ کھیلنے نہ آیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھی انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ کو کہنا پڑا کہ وہ بھی بھارت میں ہونے والا کوئی ٹورنامنٹ وہاں جا کر نہیں کھیلے گا بلکہ اُسی طرح کسی تیسری جگہ کا انتخاب کرے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارت پاکستان میں کھیلتا اور پاکستان بھارت جا کر کھیلتا۔ کھیل کو ہر صورت سیاست سے الگ رکھنا چاہئے، دنیا کی دیگر ٹیمیں اِسی سپرٹ کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں، برطانیہ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں بھی روایتی حریف ہیں، بعض دیگر ممالک بھی ایک دوسرے کے حریف گردانے جاتے ہیں لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے ملک جا کر کھیلنے سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ ساری محنت کھیل کے میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے پر صرف کرتے ہیں، صحت مندانہ مقابلہ کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کھیلوں کے مقابلے ہی دیکھے جاتے ہیں، عالمی مقابلوں کو کروڑوں لوگ بیک وقت ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں اور اِن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھیل نوجوانوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اِسے دیکھنے والے کے ذہن پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں، جتنی دیر کھیل جاری رہتا ہے اُتنی دیر دیکھنے والوں میں خاص قسم کا جوش و ولولہ قائم رہتا ہے جس میں مقابلہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے کھلاڑیوں کا احترام بھی ہوتا ہے، یہ دِلوں کو قریب لاتا ہے اور ایک دوسرے سے جوڑتا ہے،اَمن کی شمع جلاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی و صوبائی حکومتیں کھیلوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں، پنجاب گیمز ہوں یا نیشنل گیمز، یا پھر ہارس اینڈ کیٹل شو، کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں کھیلوں کا وہ دور واپس لایا جا سکے جو آج سے دو، تین دہائیاں قبل اِس ملک میں ہوا کرتا تھا، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ضلع اور تحصیل اور پھر قومی سطح پر کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا، سب کچھ دہشت گردی اور ناقص پالیسیوں کی نذر ہو گیا، کھیل کے میدان ویران ہو گئے جنہیں دوبارہ سے آباد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور جو ہر حال میں کامیاب ہونی چاہئیں۔سب کو مل کر اِس میں حصہ ڈالنا چاہئے، حکومت زیادہ سے زیادہ کھیلوں کے میدان بنائے، سہولتیں فراہم کرے، نوجوان نسل کو بھی ترغیب دینی چاہئے کہ وہ میدانوں کا رُخ کریں، کھیلوں کے میدان آباد کریں،اُنہیں یہ باور کرائیں کہ اِس سے مستقبل روشن، صحت مند، تندرست اور توانا ہو سکتا ہے، کوشش کریں کہ ملک میں کھیل کا ہر میدان آباد ہو، کھیل زندہ قوموں کی بہت بڑی نشانی ہیں۔
٭٭٭٭٭