الیکشن تو الیکشن ہوتا ہے!!
لاہور کا انتخابی میدان کئی حوالوں سے دلچسپی کا سامان لئے ہوئے تھا۔ ایک تو یہ کہ صوبے اور وفاق میں حکمران سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف تکنیکی بنیاد پر اس الیکشن سے باہر ہو چکی تھی۔ اس کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ،کو رنگ امیدوار مسرت جمشید دونوں کے کاغذات نامزدگی اس بنیاد پر مسترد ہوئے تھے کہ ان کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ دونوں اس حلقہ این اے 133 کے ووٹر ہی نہیں تھے۔ انہوں نے پریذائیڈنگ افسر کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن پھر ہائی کورٹ میں اپیلیں کیں مگر سب مسترد ہو گئیں اور پی ٹی آئی محض تماشائی بن کر رہ گئی۔ 9 آزاد امیدواروں میں سے بھی کسی کی حمایت کا اعلان کیا نہ کسی کو اپنا امیدوار قرار دیا۔ اس سے قبل موجودہ حکومت کے دور میں ہونے والے سبھی ضمنی انتخابات حکمران جماعت ہار چکی تھی شائد پارٹی قیادت نے اس میں عافیت سمجھی کہ اس بار ہارنے کی بجائے محض تماشا دیکھا جائے۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گلی کی حمایت نہ کرسکتی تھی نہ کی کہ پیپلزپارٹی اس کے نزدیک چوروں، ڈاکوؤں کی جماعت ہے اس کے امیدوار کی حمایت اس کے دیرینہ مؤقف کو ٹھیس پہنچاتی لیکن اس کا ووٹر سیانا تھا وہ اپنا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے سمجھتا ہے مسلم لیگ کا ہر دشمن اس کا دوست ہے۔ چنانچہ ووٹر نے اپنا وزن اسلم گل کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حلقے سے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے 90 ہزار اور پی ٹی آئی کے تقریباً اسی ہزار ووٹوں کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کے محض پانچ ہزار ووٹوں کے مقابلے میں اب مسلم لیگ (ن) کے تقریباً 47 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں انہیں 32 ہزار سے زیادہ ووٹ مل گئے۔
پیپلزپارٹی خوش کو ہونا چاہئیے اور ہو بھی رہی ہے کہ اس کا ووٹ بنک بڑھ گیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک سکڑ کر آدھا رہ گیا ہے۔ لیکن حقیقت شاید یہ نہ ہو اس ضمنی انتخاب میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم 18,59 فیصد رہا۔ لیکن یہ کوئی بہت زیادہ انہونی نہیں ہوئی۔ ضمنی انتخابات میں عموماً ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے اس میں ذرا زیادہ کم ہو گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ کوئی سخت مقابلہ نہیں دیکھ رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں ہونے والے الیکشن کو یکطرفہ ہی سمجھا جا رہا تھا۔ مرحوم ایم این اے پرویز ملک اور ان کا گھرانہ انتخابی دنگل کا ماہر گھرانہ ہے جن کا اپنا ووٹ بنک بھی اچھا خاصا ہے اور وہ عموماً کامیابی کے جھنڈے گاڑتا رہتا ہے۔ پھر مرحوم کی وفات سے ہمدردی کا ووٹ بھی ان کی اہلیہ کو ملنا معمول کی بات تھی۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں خاصی سمٹ چکی ہے پی ٹی آئی میدان میں تھی ہی نہیں (بظاہر) اس لئے لیگی ووٹروں نے اس معرکے کو آسان لیا اور ٹرن آؤٹ گر گیا۔ اگر عام انتخابات 2018ء اور ضمنی الیکشن 2021ء کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو آسانی سے ایک جملے میں نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ (ن) لیگ نے نشست بچالی، ٹرن آؤٹ انتہائی کم اور پیپلزپارٹی کے ووٹ بڑھ گئے، لیکن حقیقت کا پتہ تو اس وقت چلے گا جب ساری پارٹیاں میدان میں ہوں گی اور انتخابی نتائج کے نتیجے میں حکومت کے بننے یا ٹوٹنے کا امکان ہوگا۔ ایسا مگر عام انتخابات میں ہی ممکن ہوگا۔ تب تک انتخابی عوامل ضمنی الیکشن سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو حکمران جماعت کی حالت پتلی ہی رہنے کا امکان ہے۔
سابقہ ادوار میں عموماً ضمنی انتخابات کو حکومت کا الیکشن سمجھا جاتا تھا۔ یہ کریڈٹ موجودہ حکمرانوں کو جاتا ہے کہ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے اور ایک صفحہ پر ہوتے ہوئے بھی ہار رہے ہیں اور مسلسل ہار رہے ہیں۔ گزشتہ روز کے ضمنی انتخاب میں البتہ حکمرانوں کی ”فیس سیونگ“ اس طرح ہو گئی کہ ہارنے والوں میں ان کے نام اور نشان کا امیدوار نہیں تھا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو میدان میں ہی نہیں تو محض تماشائی تھے ہم تو ہارے نہیں لیکن سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے اسلم گل کو عام انتخابات کے مقابلے میں چھ سات گنا زیادہ ووٹ فرشتوں نے نہیں ڈالے۔ پی ٹی آئی کے ووٹروں نے ڈالے ہیں۔ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقامی قیادت نے اپنے ووٹروں کو یہ پیغام دیا ہوگا کہ پیپلزپارٹی کو ووٹ ڈال کر مسلم لیگ (ن) کو شرمندہ کرنے کا سامان کریں۔ ورنہ اگر کوئی اشارہ کوئی ہدایت نہ ہوتی تو پی ٹی آئی کے ووٹوں کا کچھ حصہ تو آزاد امیدواروں کو بھی مل جاتا۔ سارے تو تیر نہ چلاتے خیر اب یہ کامیابی بھی تاریخ کے صفحات میں مسلم لیگ (ن) کے کھاتے میں درج ہو جائے گی۔ اس سے مسلم لیگی حلقے اگر یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی نا اہلی نے ان کا ووٹ بنک سلامت رکھا ہوا ہے یا یہ کہ تمام تر انتقامی کارروائیوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں نقصان نہیں پہنچایا جا سکا۔ لیکن یہ نتیجہ حاصل کرنا تھوڑی سی جلد بازی بھی کہلا سکتا ہے۔ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق پنجاب کی روایات کے مطابق اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کو اندر سے نقب نہیں لگائی جا سکی تھی۔ اس کی کوشش شروع ہو چکی ہے اور مستقبل میں مزید بہتر ہو سکتی ہے شرق پور شریف سے ایم پی اے پیر جمیل احمد شرقپوری اور خانیوال سے ایم پی اے، احمد ڈاہا مرحوم اور مسٹر نیازی سمیت چھ سات ارکان پنجاب اسمبلی کو اپنایا جا چکا۔
ان میں سے نشاط احمد ڈاہا کے انتقال سے ان کی صوبائی نشست خالی ہو گئی تو حکمران جماعت نے ان کی اہلیہ کو ہی ٹکٹ دے کر ثابت کر دیا کہ مسلم لیگی ہونے کے ناطے تحریک انصاف سے جڑ چکے تھے اب ضمنی الیکشن سر پر ہے ہر طرف سے زور لگایا جا رہا ہے۔ جوڑ توڑ جاری ہے۔ خانیوال کی اس نشست پی پی 206 پر الیکشن بھی دلچسپ ہوگا۔ پنجاب میں غالباً یہ پہلی مثال ہو گی کہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں مسلم لیگی دھڑے کو ہی بلا پکڑا کر میدان میں اتارا ہے۔ اس صورتحال میں مسلم لیگی حلقے چاہیں بھی تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں طرف سے مسلم لیگی ہیں۔ جو بھی جیسا مسلم لیگی ہوگا۔ اگر یہ کہا جا سکتا تو کسی زمانے میں سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی بھی مسلم لیگی تھے۔ مگر اب وہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے اثاثہ ہیں اور مسلم لیگ کے ہی بخیئے ادھیڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ کچھ تو ہماری سیاست میں عام ہے اور یہ بھی عام ہے کہ ضمنی الیکشن سے حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن یہ بھی درست ہے کہ ان ضمنی انتخابات سے ووٹروں کے میلان اور رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب کی حد تک ابھی تک اسی رجحان کا تسلسل چلا آ رہا ہے جو 2018ء کے انتخابات میں نظر آیا تھا۔ خانیوال کی نشست پر کچھ اور ہو جائے تو کہا نہیں جا سکتا کہ انتخاب تو انتخاب ہی ہوتا ہے صندوقچی کھلنے تک ”پراسراریت“ قائم رہتی ہے اس لئے اس نشست پر بھی ”پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ“ دیکھیں پردے سے کیا برآمد ہوتا ہے لیکن پہلی بار بندوبست خاصے تگڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ مقامی مسلم لیگی رہنماؤں کی کڑی آزمائش بہر حال ہے۔