خونی کھیل ۔ ۔ ۔

خونی کھیل ۔ ۔ ۔
خونی کھیل ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تحریر :تہمینہ تسنیم

موسم بہار کی آمد آمد تھی۔ شدید سردی اور پت جھڑ کے بعد نکلتا ہوا یہ موسم ہر کسی کو دعوت نظارا دے رہا تھا۔ پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں پھر سےرونقیں لگ گئی تھیں اورآسمان رنگ برنگی  پتنگوں سے سجنے لگا تھا ، ہر طرف چرند پرند باہر نکل آئے تھے۔موسم بہار فروری کے دوسرے ہفتے سے شروع ہو کر اپریل کے آخر تک رہتا ہے ۔ اس موسم میں طبیعت بھی بشاش رہتی ہے اور موڈ بھی بحال ۔

سلیم بھی سارا دن ان رونقوں کو دیکھتا اور خوش باش موٹر سائیکل پر سوار لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ، انار کلی بازار، شیراں والاگیٹ، صدر اوردیگر مشہوربازاروں کی بوتیکوں سےماں اور بڑی بہن شائستہ کے لیے کپڑوں کی سلائی کے آرڈر لے کر جاتا اورکپڑےسلوا کر مارکیٹوں میں دیتا ۔ ایک دو جگہ پر تو اسے باقاعدگی سے آرڈر لینے ہوتے تھے ۔باقی مارکیٹوں میں بھی وہ مہینے میں ایک دو بار چکر لگا لیا کرتا تھا، جہاں سے بھی آرڈر مل جائے، پکڑ لیتا جس سے گھر کا خرچ، سلیم اور اس کی چھوٹی بہن شگفتہ کی پڑھائی بھی چل رہی تھی۔ سلیم بیس سال کا خوبرو نوجوان تھا جو کہ شام کے اوقات میں اکیڈمی  میں بھی کام کر رہا تھا اور اس کی چھوٹی بہن آئی کام  کی سٹوڈ نٹ تھی۔ بڑی بہن نے  انٹرمیڈیٹ  کے بعد ماں کا سلائی میں ہاتھ بٹانے کو ترجیح دی   اور دونوں مل کر گھر چلا رہی تھیں۔ سلیم پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی وسیع کرنا چاہتا تھا تا کہ بڑی بہن   کی  بر وقت  شادی کی جا سکے ۔وہ اپنی ذاتی بوتیک بنانے کا خواہاں تھا  ۔

باپ کی موت نے اسے وقت سے پہلے اپنی عمر سے بڑا اور ذمہ دار بنا دیا تھا، اس کا باپ  بھی اعلیٰ پائے کا درزی تھا اور اس کا سلا ہوا کپڑا لاہور کی مارکیٹوں میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔وہ اچانک ہی گردوں کے مرض میں مبتلا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند مہینوں میں جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ سلیم اب گھر کا اکلوتا نور چشم تھا اور  سب کی نگاہیں اس پر تھیں۔وہ بہت سنجیدہ، ذمہ دار اور نرم دل انسان تھا ، یہی وجہ تھی کہ اس نے تھوڑے سے وقت میں بہت سارے لوگوں کی محبتیں اور دوستیاں اکھٹی کر لیں تھیں۔ مارکیٹ میں بھی لوگ اس کی عزت کرتے اور محبت سے پیش آتے، زیادہ تر لوگ اس کے باپ کو بھی جانتے تھے ۔گھر میں ماں بہنیں  تو اس پر جان نچھاور کرتی تھیں ۔ اکلوتا اور ذمہ دار ہونے کی وجہ سے ماں تو اس کو دیکھ ویکھ کر جیتی  مگر  کبھی  کبھی سلیم کو نجانے کیا ہو جاتا ،  اسے لیٹے اور کبھی بیٹھے بیٹھے اپنے باپ کی میت کا  خیال آ جایا کرتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ پسینے سے شرابور ہے  ،لاہور کی ان  تنگ و تاریک گلیوں میں اس کا دم گھٹ رہا ہے اور یہ اونچے اونچے چوبارے اس کے سر پر گر جائیں گے۔

وہ اس کیفیت سے  نکلنے کے لیے  فورا گھرسے نکل  جاتا اور کسی کھلی جگہ یا کسی پارک میں بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لیتااور ان بچوں کو بغور دیکھا کرتا جو خاص  طور پر اپنے والد کے ساتھ باہر کھیلنےآئے ہوتے،  باپ کے سائے تلے وہ  کھلی فضاؤں  میں بے فکری سے سانس لیتے  اور کھیلتے کودتے ۔ شام کے وقت آسمان رنگا رنگ پتنگوں سے سجا ہوا تھا  ۔ جواں عمر لڑکے اور بچے   پتنگیں لڑا رہے تھے۔پتنگ بازی دراصل ایسا شغل ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں مختلف انداز سے  منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی  ہر علاقے میں خاص طور پر موسم بہار میں باقاعدہ اس کا ایک تہوار ''بسنت'' کےنام سے  منایا جاتا  ہے، پتنگ  اُڑانے کے لیے  اس کی ڈور کو تیز دھار بنایا جاتا ہے جس کی بناوٹ میں شیشہ ،چاولوں کی لئی ،کپڑے رنگنے والا کیمیکل اور رنگ بھی ڈالا جاتا ہے تا کہ تیز دھار ڈور سے حریف کی پتنگ کاٹی جا سکے  ۔اب تو کچھ عرصہ پہلے سے   اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے  ''دھاتی یا کیمیکل ڈور'' کا استعمال عام ہو گیا ہے اوراس میں  نائیلون  کے دھاگے پر  کیمیکل چڑھایا جاتا ہے ، ان تمام چیزوں نے اس تہوار کو خونی کھیل  بنا دیا ہے۔
سلیم اوپر چھت پر چڑھا تو اس  شور سے بھی تنگ ہونے لگا  اور  اسے یاد آنے لگا کہ جب وہ چھوٹا تھا  تو ایک بار  گڈی اڑانے کی ضد پر ابا نے اسے کیسے سمجھایا تھا کہ بیٹا پتنگ بازی کی لت لگنا ایک بُری بات ہے اور اس کی تیز دھاری ڈور سے ہر سال کئی لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا   ایک بڑا آفیسر بنے نا کہ مجرم ۔۔ جو اس    طرح کے فضول شغل سے دوسروں کی جان لے لے۔ وہ  اپنے چھوٹے سے ذہن پر بہت زور ڈال کر  ابا کی باتیں سمجھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔وہ ابھی  پتنگوں  کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجنے لگی ، فون اٹھایا تو دوسری طرف اس کا دوست  شاہد تھا ۔ شاہد کی ماں میو ہسپتا ل میں تھی اور اسے  ''بی+ '' خون کی اشد ضرورت تھی ۔ سلیم کا یہ سننا تھا  کہ وہ فوراًنیچے  اترا  ۔

آج اتوار ہونے کی وجہ سے اسے  اکیڈمی سے چھٹی تھی مگر وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر  موٹر سائیکل پر بیٹھا اور گھر سے نکل گیا ۔  وہ ابھی موٹر سائیکل پر تیزی سے  آگے بڑھا ہی تھا کہ  اسے گلے میں ایک پھندا سا  محسوس ہوا جو  کسی تیز دھاری تلوار کی طرح گلے کے اندر ہی پیوست ہو گیا اور  وہ موٹر سائیکل  سمیت زمین پر تھا ۔ لمحوں میں ڈور کا پھندا اس کے گلے کو چیرتا ہوا سانس کی نالی میں پیوست ہو گیا مگر اس کی گرفت ختم نہ ہوئی  یہاں تک کہ سلیم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا   ، دکان دار اور محلے دار سب اس کے گرد جمع تھے۔ بازار سے شور کی آواز سن کر  سلیم کی ماں بھی باہر دیکھنے لگی ، پھرسر تا پا دوڑتی ہوئی بازار میں آگئی ، جا بجا خون ہی خون تھا، سلیم کسی ذبح  کیے ہوئے جانور کی طرح زمین پر تڑپ  رہا تھا۔ایمبولینس آنے تک  بہت دیر ہوچکی تھی    اور ماں کا  اکلوتا چشم و چراغ ہمیشہ کے لیے گُل ہو گیا ۔
 وہی موسم ِ بہار تھا اور وہی رنگ و بو ،مگر کسی  انجان کے قاتل شوق نے  بے قصور سلیم  کے گھر والوں کو ہمیشہ کے لیے خزاؤں میں  جھونک دیا تھا۔

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -