عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ اور عمران خان
طویل انتظار کے بعد خبر آئی ہے کہ جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان سمیت100ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔عمر ایوب، ملک احمد چٹھہ اور راجہ بشارت کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، مقدمے میں کل143 ملزمان نامزد ہیں،23 ملزمان کو پہلے ہی اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے فردِ جرم پڑھ کر سنائی اور کیس10دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔(ازاں بصد پشاور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت والے گوہر ایوب اور راجہ بشارت سمیت چار اراکین رہا کر دیئے گئے)۔
لگتا ہے قومی جرائم میں ملوث ان حضرات کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا،کیونکہ9مئی کے واقعات، چھوٹے موٹے وقوع نہیں ہیں، ریاست پر حملہ ہیں۔ ہمارا دشمن، پاکستان کے دشمن، اربوں ڈالر خرچ کر کے یہاں ایسی حرکات کراتے ہیں پاکستان دو دہائیوں سے دشمنوں کی ایسی مذموم کاوشوں کے باعث دہشت گردی کا شکار ہے۔دہشت گردوں کے حملے ریاست پاکستان کے عزم صمیم کے آگے پاش پاش ہو جاتے ہیں، لیکن9مئی تو ایسے واقعات کا مجموعہ ہے جن کے بارے میں سوچ سوچ کر تھک جاتے ہیں،لیکن جواب نہیں ملتا کہ ایسا کیوں کیا گیا، اپنے ہی شہریوں نے دشمن کے ساتھ مل کر ریاست کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی۔9مئی کے کئی ملزمان، سہولت کار ابھی تک دندناتے پھر رہے ہیں، فردِ جرم عائد ہونے کے بعد معاملات درست سمت میں چلنے لگیں گے۔ انشاء اللہ
دشمن قوتوں نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ریاست پاکستان کے خلاف بالعموم اور افواجِ پاکستان کے خلاف بالخصوص ایک ایسی جنگ شروع کر رکھی ہے جس میں ہمارے اپنے شہری نوجوان وغیرہ دشمنوں کے پیادے اور گھڑ سوار بن کر ریاست پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ عمران خان نے انہیں ایک ایسا بیانیہ دے دیا ہے، جس کی جگالی کے ذریعے وہ معاملات کو لے کر چلتے ہیں اورچلتے ہی جا رہے ہیں۔ہمارا ملک سوشل میڈیا میں بیٹھے ففتھ جنریشن وار کے سپاہیوں کے نشانے پر ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دن رات، صبح شام ریاست پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ فیک نیز کے ذریعے بدامنی پھیلاتے ہیں، زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ذہنی انارکی پھیلاتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔
ایسے ہی سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے ”عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ“ مہم چلا رکھی ہے اس مہم کے ذریعے وہ ایسا تاثر پیدا کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں کے لئے یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہو۔ عسکری ادارے، فلاحی ہوں یا کمرشل،ہماری قومی معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گزشتہ دِنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ یہ ادارے اربوں روپے کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ 300ارب سے زائد ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے میں جمع کرایا جاتا ہے یہ ایک خطیر رقم ہے جب اِس قدر ٹیکس جمع کرایا جاتا ہے تو پھر ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ ایسے اداروں میں کس قدر پیداواری عمل جاری و ساری ہو گا، کتنے لوگوں کو براہِ راست اور کتنے لوگوں کو بالواسطہ روزگار میسر ہو گا۔پھر یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہی ہو رہا ہے ایسے پیداواری عمل میں استعمال ہونے والا خام مال اور اس سے تیار ہونے والا مال ہماری قومی معیشت کا حصہ بنتا ہے ایسے میں عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ بے معنی دارد؟
عسکری ادارے بشمول تعلیمی ادارے ہمارے معاشرے میں اعلیٰ خدمات سرانجام دے رہے ہیں،مجھے ذاتی طور پر کچھ اداروں سے خدمات لینے کا تجربہ ہے۔ میری تین بیٹیاں ہیں، تینوں آرمی پبلک سکولز میں پڑھی ہیں۔ ایک بیٹی نے فوجی انتظام و انصرام والے میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر سی ایم ایچ میں ہی ہاؤس جاب کی۔ کچھ دیرتک اسی میڈیکل کالج کے فیکلٹی ممبر کے طور پر خدمات بھی سرانام دیں، پھرایک عسکری ادارے سے ایم ایس کیا اور اب سرکاری عسکری ادارے میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہی ہے اسے یہاں خدمات سرانجام میں فخر ہے۔میری بیٹی ایک اعلیٰ تعلیمی یافتہ پیشہ ور خاتون ہے تو اِس کا کریڈٹ اول تا آخر عسکری اداروں کو ہی جاتا ہے۔
دوسری دونوں بیٹیوں نے سکولنگ فوجی سکولوں میں مکمل کی مجھے ایک بات کی تسلی ہے کہ میں نے انہیں ایک اچھا شہری بنانے اور مسلمان بنانے میں اچھے،بلکہ بہترین سکول کا انتخاب کیا،دونوں میں سے ایک بیٹی ہوم اکنامکس کی استاد ہے اور پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے سرکاری کالج میں خدمات سرانجام دے رہی ہے، تیسری بیٹی اے ٹی میں ڈگری حاصل کرنے کے آخری مراحل میں ہے۔ہمارے ہاں سرکاری تعلیمی نظام کی جو حالت ہے ہمارے سامنے ہے، عسکری انتظامیہ کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی نظام کے بارے میں اچھی نہیں بہت اچھی رائے پائی جاتی ہے۔
پرائمری کی سطح سے لے کر مڈل اور ہائی سکول تک، پھر کالج و یونیورسٹی لیول تک عسکری ادارے قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ان اداروں کو دورِ جدید سے ہم آہنگ روایات و قواعد کے مطابق چلایا جاتا ہے ان اداروں سے فارغ التحصیل بچے بچیاں نہ صرف معاشروں میں بہترین شہری کے طور پر جانے جاتے ہیں اور بہترین پیشہ ور کے طور پر اپنا آپ منواتے ہیں، بلکہ انہیں اپنے اداروں پر فخر بھی ہوتا ہے۔
دوسری طرف تجارتی وکاروباری مقاصد کے لئے قائم ادارے ہیں ان میں سی ایس ڈی ڈیپارٹمینٹل سٹورز کا وسیع و عریض نیٹ ورک ہے جو اشیاء ضروریہ کی فراہمی یا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔سی ایس ڈی اپنی پہچان آپ ہیں یہاں معیاری اشیاء مناسب ہی نہیں انتہائی مناسب قیمتوں پر فراہم کی جاتی ہیں یہ سہولیات ہر خاص و عام کے لئے ہیں۔بہترین ماحول اور اعلیٰ انتظام کے تحت یہ سروس کروڑوں شہریوں کے لئے دستیاب ہے۔
ہاں عصر حاضر میں فوج کی ایک ایسی پراڈکٹ کا بائیکاٹ کرنا نہ صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو گا،بلکہ اس سے ثواب دارین بھی حاصل ہو گا اور وہ پراڈکٹ ہے عمران خان۔جی ہاں عمران خان کو ایک دیو کی شکل دینے اور اسے شہرت کے بام عروج تک پہنچانے کا سہرا ہماری فوج کے سر جاتا ہے۔1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر2011ء تک عمران خان کی اوقات ہی کچھ نہیں تھی وہ گلی گلی، محلہ محلہ لور لور پھرتا اور تقریریں کرتے ہوئے دانشوری بگھارتا رہتا ہے،عوام نے اسے گھاس نہیں ڈالی تھی پھر2011ء میں ہماری فوج نے اسے گود لیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو ختم کرنے، نواز شریف و آصف علی زرداری کو بدنام کرنے کے لئے عمران خان کو ایک مہرے کے طور پرآگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مینارِ پاکستان میں ایک فقید المثال جلسے کا اہتمام کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسے شہرت کی بلندیوں تک لے جانے کے بعد2018ء میں اقتدار میں لایا گیا پھراس نے جو کچھ کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ نواز شریف اور اس کی پارٹی، آصف علی زرداری اور اس کی پارٹی میدان عمل ہے۔عمران خان ریاست کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اگر کسی عسکری پراڈکٹ کا بائیکاٹ کرنا ہے تو پھر عمران خان کا بائیکاٹ کرو،کیونکہ وہی اِس وقت ملک و قوم کے لئے ناسور بن چکا ہے۔
٭٭٭٭٭