شام میں اپوزیشن فورسز بشارالاسد کے سر پر آپہنچیں، دارالحکومت دمشق کو گھیرنا شروع کردیا
دمشق (ڈٰیلی پاکستان آن لائن) شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار پر ایک اور بڑا دھچکا اس وقت لگا جب حکومتی افواج نے درعا شہر کا کنٹرول کھو دیا۔ اسے 2011 کی شامی بغاوت کے آغاز کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق شامی اپوزیشن فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جنوبی صوبہ درعا کو حکومتی کنٹرول سے چھین کر دارالحکومت دمشق کو گھیرنا شروع کر دیا ہے۔ شام کی وزارت دفاع نے ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ فوج دارالحکومت کے قریب اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر بھاگ رہی ہے۔
سنہ 2011 میں شام کی خانہ جنگی کا آغاز دارالحکومت دمشق سے 100 کلومیٹر دور درعا شہر سے ہوا تھا۔ یہ شہر ملک گیر مظاہروں کا مرکز بن گیا تھا۔ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب اسد حکومت نے چند لڑکوں کو حکومت مخالف نعرے دیواروں پر لکھنے کے الزام میں حراست میں لے کر مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ پرامن مظاہروں سے شروع ہونے والی یہ تحریک جلد ہی ایک پرتشدد تنازع میں تبدیل ہوگئی، جس میں اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
درعا کے سقوط سے پہلے شامی حکومت نے حلب، جو ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، اور وسطی علاقے میں واقع حما کا کنٹرول بھی کھو دیا تھا۔ اب اپوزیشن فورسز حمص پہنچ چکی ہیں جو دمشق سے انتہائی قریب ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق شامی افواج دیرالزور کو خالی کرکے حمص جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع کلیدی جنکشن پالمیرا میں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں ۔
شامی اور روسی طیاروں کے فضائی حملے اپوزیشن فورسز کی پیش قدمی کو سست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں محدود ہیں کیونکہ روس کی عسکری توجہ اس وقت یوکرین سمیت دیگر محاذوں پر تقسیم ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، ایران نے شام سے اپنے فوجی اہلکاروں اور عسکری حکام کو عراق اور لبنان منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران کے عام شہری بھی شام سے انخلا کر رہے ہیں، کیونکہ وہاں اسد حکومت کی مسلسل حمایت پر ایرانی حکومت کے خلاف مخالفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔