بھوک ہڑتال کی دھمکی
پی ٹی آئی بحیثیت جماعت سمجھ چکی ہے کہ جب تک عمران خان جیل سے باہر نہیں آتے تب تک عوام سڑکوں پر نکلنے والے نہیں،اسی لئے انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اب عمران خان کی طرف سے بھوک ہڑتال کے اعلان کو اپنا اعلان بناتے ہوئے پورے ملک میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کا نعرہ لگایا ہے۔ بطور اپوزیشن جماعت یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے، کیونکہ سردست پی ٹی آئی کا مطمع نظر عمران خان کی رہائی ہے نا کہ عوام کو ٹیکسوں میں اضافے اور اس اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مہنگائی سے نجات دلانا۔ چونکہ بجٹ کا نفاذ یکم جولائی سے ہوچکا اس لئے عوام کو متحرک کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے ہاتھ ایک ٹھوس جواز آگیا ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، حافظ نعیم الرحمن اور بلاول بھٹو بھی پر تولتے نظر آتے ہیں۔ ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال کسی بھی اپوزیشن جماعت کے پنپنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں کس حد تک اس سے فائدہ اُٹھاسکتی ہیں، کیونکہ ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ملک کو وہ سیاسی استحکام بھی دینا ہے جو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے ازحد ضروری ہے۔جنوبی ایشیا کی حد تک رائج معاشی ماڈل کے مطابق تب تک عوام کے لئے روزگار اور خوشحالی یقینی نہیں بنائی جا سکتی جب تک باہر سے لاکھوں اربوں ڈالر یہاں کی معیشتوں میں کھپائے نہیں جاتے، حتیٰ کہ زراعت بھی بغیر بیرونی مدد کے میکانائز نہیں ہوسکتی، مینوئل زراعت کا دور تو ویسے ہی کب کا لد چکاہے۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ عوام روپے کی بے قدری، ٹیکسوں اور مہنگائی سے تنگ ضرور ہیں، لیکن نو ن لیگ کی اتحادی حکومت سے ابھی تک عوام کی تنگی کا خاص اظہار نہیں ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اتحادی صوبائی حکومتوں کا ہونا بھی ہے۔ اپوزیشن ملک میں جس قسم کا ہنگامہ کرنے کا پروگرام بناچکی ہے اس کا توڑ کرنے کے لئے نون لیگ کے قائد اور صدر نواز شریف کی جانب سے محرم کے دس دنوں کے بعدعوامی رابطہ مہم شروع کرنے کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں، کیونکہ اگر وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ موجودہ بجٹ کے نتیجے میں اگلے چھ ماہ بعد عوامی راحت کے دن شروع ہو جائیں گے اور عوام نے ان پر یقین کرلیا تو اپوزیشن، خاص طور پر پی ٹی آئی کے لئے بچنا مشکل ہوجائے گا،اگر ایسانہ ہوا اور عوام اپوزیشن کے ساتھ جا کھڑے ہوئے تو بھی حکومتی اتحاد کے پاس کچھ قابل عمل آپشن پھر بھی موجود رہیں گے جن کو بروئے کار لا کر وہ عوام کے غیض و غضب کو کم کرنے کا اہتمام کر سکتا ہے۔دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ ملک میں آپریشن عزم استحکام شروع کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہے، کیونکہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی سربراہی لینے کے بعد اب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں یقینی بنانا اس کا دشمن سے لڑائی سے بھی بڑا فرض بن چکا ہے۔شہباز حکومت بھی اس کی بھرپور حمائت پر آمادہ ہے اور اس ضمن میں مجوزہ کل جماعتی کانفرنس کا اہتمام ہونے جارہا ہے، جس میں پی ٹی آئی کو بھی میں مدعو کیا جائے گا۔ اب اصل امتحان تو پی ٹی آئی کا ہو گا کہ اگر وہ اس کانفرنس میں آبیٹھتی ہے تو اس کی عوامی رابطہ مہم متاثر ہونے کا امکان بڑھ جائے گا اور اگر نہیں بیٹھتی تو عوامی و صحافتی حلقوں سمیت سیاسی مخالفین کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ اس امتحان میں پی ٹی آئی کس طرح پوری اترتی ہے، کیونکہ اس کے لئے مذاکرات کی چھپکلی کو اگلنا یانگلنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہوگا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کسی طرح موجودہ سیاسی صورتحال کو کھینچ تان کر نومبر تک لے جانے کی تگ و دو میں ہے، کیونکہ اس کے بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات جیت کر دوبارہ سے امریکہ کے صدر بن گئے تو عمران خان کے لئے اچھے دنوں کا آغاز ہو سکتا ہے، لیکن یہ حلقے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تب ملکی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پیچھے کھڑی تھی اور آج ان کے مقابل کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی کانگریس کی جانب سے پاس کی جانے والی قرارداد اپنی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی غیر موثر ہو چکی ہے، کیونکہ اس کو امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ بعد میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو جس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی بھی گئی تو اس پر خود اقوام متحدہ نے وضاحت جاری کرکے ڈھول کا پول کھول دیا اور اب عمران خان کے پاس بھوک ہڑتال کی دھمکی دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ۔
یہ حقیقت ہے کہ بھوک ہڑتال کی دھمکی اور خود بھوک ہڑتال بلاشبہ ایک عالمی خبر بنے گی لیکن پی ٹی آئی کو اس کا بہت ٹھوس جواز بنانا پڑے گا،یہ کہنا کہ چونکہ پارٹی رہنماؤں کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے نہیں ملنے دیا گیا اِس لئے بھوک ہڑتال ہو رہی ہے،کچھ زیادہ کارگر بہانہ نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت جواب میں پارٹی رہنماؤں کی ملاقات کا اہتمام کرکے اس غبارے سے ہوا نکال سکتی ہے، اس کے لئے عمران خان کو کچھ اور کرنا ہوگاوگرنہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لئے جتنی ڈنڈ بیٹھکیں نکالتے ہیں، وہ چاہیں بھی تو دو دن بھوک برداشت نہیں کر سکتے، اگر کوئی ایسا ٹھوس جواز میسر نہ آیا تو عین ممکن ہے کہ عمران خان بھوک ہڑتال کی دھمکی سے آئندہ دنوں میں یو ٹرن لیتے نظر آئیں اور اپنی لئے مزید سبکی کا سامان پیدا کرجائیں، ان کی سابقہ روش دیکھیں تو یہ غیر متوقع بھی نہیں ہوگا!