کشمیر جس ملک کے پاس بھی جاتا اس کو سٹرٹیجک برتری سے ہمکنار کر دیتا!
لیٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان
1947ءمیں پنجاب سے سری نگر تک جانے کے لئے درجِ ذیل صرف چار سڑکیں ایسی تھیں جن پر موٹرگاڑیوں کی ٹریفک رواں رہ سکتی تھی:
1۔ گورداسپور۔ کٹوہہ۔ جموں۔ درہ بنی ہال۔ سری نگر
2۔سیالکوٹ۔ جموں ۔ درہ بنی ہال ۔ سری نگر
3۔راولپنڈی۔ مری۔ کوہالہ۔ ڈومیل۔ سری نگر
4۔ راولپنڈی ۔ ایبٹ آباد۔ مانسہرہ۔ مظفرآباد۔ سری نگر
1947ءمیں ریاست کشمیر کی زیادہ تر سڑکیں کنکریلی (Shingle) تھیں اور چوڑائی میں تنگ اور بل کھاتی ہوئی تھیں اور یک طرفہ ٹریفک کے لئے شاذ ہی موزوں تھیں۔
درئہ بنی ہال سردیوں میں برفباری کی وجہ سے موٹرٹریفک کے لئے بند ہو جاتا تھا۔ اور سارے موسم سرما میں بند رہتا تھا۔ اس کو ٹریفک کے لئے جاری رکھنا اور راستے کی بہت سی رکاوٹوں کو دور کرنا ملٹری انجینئروں کے عزم و حوصلے، وسائل ہنر مندی اور حاضر دماغی کا کڑا امتحان ہوتا تھا۔
پاکستان میں بہت سے سویلین حضرات ایسے ہوں گے جنہوں نے سویلین ٹرانسپورٹ میں موسم گرما کے مہینوں میں درہ بنی ہال کا سفر کیا ہوگا۔ ان کو یقین ہوتا تھا کہ یہ درہ نومبر سے مارچ تک ناقابلِ عبور ہو گا۔ پاکستان کے لوگوں کا یہ یقین پختہ بھی تھا اور اسی نے پاکستان کی پالیسی پر بھی اثرات ڈالے۔
1947-48ءمیں درجِ بالا سڑکوں کے علاوہ درجِ ذیل کنکریلی سڑکیں بھی ایسی تھیں جنہوں نے ملٹری آپریشنوں پر اثر ڈالا:
1۔ جموں۔ نوشہرہ۔ کوٹلی۔ پونچھ / پلندری
2۔نوشہرہ۔ راجوڑی۔ مینڈھر۔ پونچھ
3۔ نوشہرہ۔ جھانگڑ۔ دھرم سال۔ میرپور
4۔جموں۔ اکھنور۔ مناور۔ بھمبر۔ میرپور۔ پونچھ۔ اوڑی۔
1947-48ءمیں سازگار موسم میں یہ سڑکیں چند مقامات پر بمشکل جیپ ٹریفک کے لئے موزوں تھیں۔
1947ءمیں درجِ بالا سڑکوں کے علاوہ صرف خچروں کی آمد و رفت کے راستے (Tracks) موجود تھے جو ان دریائی وادیوں میں میسر تھے۔ ان کی چوڑائی، ان کا گریڈینٹ (شرحِ ڈھلان) اوران کے حمل و نقل کی اہلیت، دماغ کو بوکھلا دینے والی تھی۔
وادیوں کے درمیان جانبی مواصلات کی تعداد بھی نہایت محدود تھی۔ صرف پہاڑی پگڈنڈیاں تھیں جو بارش یا برف پگھلنے کے دوران ناپید ہو جاتی تھیں۔
مندرجہ ذیل راستے (Routes)پاکستان اور گلگت کو سری نگر سے ملاتے تھے:
پاکستان
٭ مردان۔ سیدو۔ کالام۔ گوپنیر۔ گلگت (یہ روٹ سیدو شریف تک قابل ٹریفک تھا)
٭ ایبٹ آباد۔ بالاکوٹ۔ کاگن۔ درہ بابوسر۔ چلاس۔ بونجی۔ گلگت (یہ روٹ بالا کوٹ تک قابلِ ٹریفک تھا)
سری نگر
٭ بانڈی پور۔ گریز۔ درئہ برزل۔ استور۔ بونجی۔ گلگت (یہ روٹ بانڈی پور تک قابلِ ٹریفک تھا)
٭ سری نگر۔ سونامرگ۔ درئہ زوجی لا۔ کارگل۔ سکردو۔ گلگت (یہ روٹ سونامرگ تک قابلِ ٹریفک تھا)
یہ سڑکیں یا تو دریاﺅں کے کناروں کے ابھاروں کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی تھیں یا ایسے زمینی قطعات پر کہ جو اردگرد کی زمین سے اونچے تھے اور ان کا خاتمہ کسی پہاڑی کے ناقابلِ عبور حصے پر جا کر اچانک ختم ہو جاتا تھا۔موٹرگاڑیوں کا ٹریفک انہی سڑکوں پر رواں رہتا تھا جسے رواں دواں رہنے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ان سڑکوں کے آس پاس کہیں کہیں کھیت بھی نظر آتے تھے جن میں کاشتکاری کی جا سکتی تھی۔
پہاڑیوں کے بیچ میں نالے بہتے تھے جن میں بارش اور پگھلی ہوئی برف کا پانی بہہ کر دریاﺅں میں جا گرتا تھا۔ یہ نالے اور ان کے اردگرد واقع پہاڑیاں انسانی نقل و حرکت کو بھی دعوت دیتی تھیں۔ یہ نشیب و فراز لامتناہی اور لاتعداد تھے، کبھی اونچے کبھی نیچے، کبھی ہموار اور کبھی ناہموار، کبھی مشکل چڑھائیاں اور کبھی آسان اترائیاں جن میں احتیاط کے تقاضے گوناں گوں تھے!
کشمیر کے درجِ ذیل چار دریا ملٹری آپریشنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں:
1۔ دریائے سندھ: تبت سے شروع ہوتا ہے اور سکردو۔ بونجی سے ہوتا ہوا اٹک کی طرف چلا جاتا ہے۔
2۔ دریائے نیلم: اسے کشن گنگا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شمال میں سونامرگ سے شروع ہوتا ہے اور وادیءٹیٹوال میں بہتا ہوا ڈومیل کے مقام پر دریائے جہلم سے جا ملتا ہے۔
3۔ دریائے جہلم : یہ دریا، ولر (Wular) جھیل سے شروع ہوتا اور بارہ مولا، ڈومیل، میرپور، منگلا اور جہلم شہر تک چلا جاتا ہے۔
4۔دریائے چناب: یہ دریائ، کولو (Kulu)سے شروع ہوتا ہے اور کِشتوار، رام بان اور اکھنورسے ہوتا ہوا گجرات تک چلا جاتا ہے۔
مظفرآباد۔ سری نگر لائن کے جنوب میں دو چھوٹے دریا اور بھی ہیں جن کی اہمیت ٹیکٹیکل نوعیت کی ہے:
1۔ماھل: یہ دریا باغ، منگ باجری سے ہوتا ہوا دریائے جہلم میں جا گرتا ہے۔
2۔پونچھ: یہ دریائے پونچھ اور کوٹلی سے ہوتا ہوا میرپور کے نزدیک منگلا ڈیم میں جا شامل ہوتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ ان جغرافیائی نقوش کے اثرات ملٹری آپریشنوں پر کیا پڑتے ہیں۔
گھاٹیوں اور دروں میں پُل سازی کا کام مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان میں ایسی جگہیں بہت کم ہوتی ہیں جن میں آہنی چوب ٹھونک کر ان کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
کشمیر کے طول و عرض میں یا تو سبزہ و گل اور اشجار کی بہتات ہے یا پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جو ڈائریکٹ فیلڈ آف فائر کے ہتھیاروں کا استعمال محدود کر دیتی ہیں۔ یہ کمی اِن ڈائریکٹ (بالواسطہ) فائر کرنے والے ہتھیاروں سے پوری کی جاتی ہے۔
بالواسطہ فائر کرنے والے ہتھیاروں کے ساتھ انصرامی (Logistic) مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ توپوں سے پہاڑوں کی چوٹی لائن کو کلیئر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان ہتھیاروں کی نقل و حمل بھی لاجسٹک مشکلات کا باعث بنتی ہے۔1947ءمیں 3انچ مارٹر کی رینج 1600گز تھی۔
مارٹر ہوں یا توپیں ان سے پہاڑوں کی چوٹیوں کو کلیئر کرنا ایک پرابلم ہوتی ہے۔
دامنِ کوہ میں آرمر (ٹینک) آپریشنز ممکن ہوتے ہیں۔
وادیوں میں نقل و حرکت اردگرد کی پہاڑیوں کی نظری زد میں ہوتی ہے۔ جو ٹروپس وادیوں میں یا کسی ایک پہاڑی چوٹی پر پوزیشن کئے جائیں وہ دوسری چوٹی تک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک ساکن اہداف کا تعلق ہے تو اُن کی نشاندہی فضا سے (بذریعہ طیارہ) کی جا سکتی ہے لیکن غیر ساکن اور متحرک اہداف ایک تو چند گز کے فاصلے پر اِدھر اُدھر ہو سکتے ہیں اور دوسرے وادیوں میں طیاروں کی اُڑان کا فاصلہ بھی چونکہ محدود ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے زمینی اہداف کو لوکیٹ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
پہاڑیوں، ندی نالوں اور سبزہ زاروں کی کثرت ٹیکٹیکل فیصلوں کو جلد جلدکرنے سے روکتی ہے۔ گراﺅنڈ اٹیک صرف پلاٹون اور سیکشن لیول تک روبہ عمل لائے جا سکتے ہیں۔ 1947-48ءمیں جو ٹروپس کسی ایک وادی میں لگا دیئے جاتے تھے ان کو دوسری وادی میں لے جانا مشکل اور تاخیر کا باعث بنتا تھا۔
کشمیر میں، دامنِ کوہ کا موسم تو تقریباً پنجاب جیسا ہوتا ہے جو موسمِ گرما میں نسبتاً تھوڑا سا سرد ہو جاتا ہے لیکن سردیوں میں اس میں شدت آ جاتی ہے۔گرمیوں میں پہاڑوں کا موسم آرام دہ ہوتا ہے لیکن سردیوں میں نقطہ ءانجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ 7000سے لے کر 10,000فٹ تک کی بلندی پر موسمِ سرما کے لئے خصوصی وردیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور 10,000 فٹ سے زیادہ بلند مقامات کے لئے سارا سال سپیشل ساز وسامان اور سپیشل لباس کی احتیاج ہوتی ہے۔
دامنِ کوہ میں تو سارا سال آپریشنز جاری رکھے جا سکتے ہیں لیکن اِن پہاڑوں میں آپریشنوں کے لئے مئی، جون، ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینے بہترین تصور کئے جاتے ہیں۔ تاہم جن ٹروپس کو سپیشل لباس سے ملبوس کیا جاتا ہے یا سپیشل عسکری ساز و سامان سے مسلح کر دیا جاتا ہے اور کوہستانی جنگ و جدل کے لئے سپیشل ٹریننگ دی جاتی ہے، وہ سارا سال آپریٹ کر سکتے ہیں۔
ملٹری آپریشنوں کی سپورٹ کے لئے کشمیر میں نیم ہنر مند لیبر، عماراتی لکڑی (Timber) سبزیاں اور چند فروٹ میسر ہوتے ہیں۔
آبادی
سرزمین کشمیر کی خوبصورتی کی معکوس برابری اگر کی جا سکتی ہے تو وہ وہاں کے لوگوں کی فلاکت و افلاس ہے۔ کشمیر کی آبادی تقریباً 40لاکھ ہے جس میں 35لاکھ کا بسیرا دیہاتوں میں ہے۔ ان کی زمینیں بس برائے نام ہیں اور رہن سہن کی حالتِ زار، جموں اور پونچھ کو چھوڑ کر جانوروں سے کچھ ذرا سی بہتر کہی جا سکتی ہے۔ یہ دیہاتی اَن پڑھ، غریب، بھوکے ننگے اور جہالت کے مارے ہوئے تھے اور ان پر ناداری، بھوک اور بیماریوں کے آسیب سایہ فگن رہتے تھے۔ دوسری طرف وادیءسری نگر میں رہنے والے ذہین، محنتی اور فنکارانہ دل و دماغ کے مالک تو تھے لیکن گرسنگی اور بھوک کے ستائے ہوئے تھے۔
سول سروسز اور دوسرے کاروبار کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھے جن کی عیاری، مکاری اور دغا بازی کی اہلیت مسلم تھی۔
آرمی اور پولیس پر ڈوگرے قابض تھے جو سخت کوش تو تھے لیکن سست گام بھی تھے اور مذہبی عقائد کے لحاظ سے زیادہ شدت پسند نہیں تھے۔ آرمی کے رینک اینڈفائل کی بھرتی مغربی پونچھ کے مسلمان راجپوت قبائل سے کی جاتی تھی۔ 1947ءمیں تقریباً 60,000مسلمان سابق فوجی انہی قبائل سے تھے جو دوسری عالمی جنگ میں برٹش انڈین آرمی میں خدمات انجام دے چکے تھے۔
کشمیر سٹیٹ فورسز
1947ءمیں کشمیر کی ریاستی افواج درجِ ذیل یونٹوں پر مشتمل تھیں:
یونٹ
نفری کی تقسیم
’جموں اینڈ کشمیر‘ باڈی گارڈ....
ڈوگرہ
1۔
1جے اینڈ کے (J&K)انفنٹری بٹالین....
ڈوگرہ
2۔
2جے اینڈ کے رائفلز....
50فیصد ڈوگرہ
50فیصد مسلمان
3
3جے اینڈ کے رائفلز....
50فیصد ڈوگرہ
50فیصد مسلمان
4
4جے اینڈ کے رائفلز....
50فیصد ڈوگرہ
50فیصد مسلمان
5
5جے اینڈ کے رائفلز....
50فیصد ڈوگرہ
50فیصد مسلمان
6
6جے اینڈ کے رائفلز....
50فیصد سکھ
50فیصد مسلمان
7
7جے اینڈ کے رائفلز....
ڈوگرہ
8
8جے اینڈ کے رائفلز....
ڈوگرہ
9
9جے اینڈ کے رائفلز....
ڈوگرہ
[رائفلز میں تعداد ، ہتھیاروں، سازوسامان اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا حجم، بٹالین کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ مترجم]
کشمیر میں توپخانے کی دو ماﺅنٹین بیٹریاں رکھی گئی تھیں جو دوسری عالمی جنگ میں برما میں 23ماﺅنٹین رجمنٹ کا حصہ بنا دی گئیں۔ تقسیم کے وقت وہ صوبہ سرحد میں مقیم تھیں۔ ان میں سے ایک بیٹری (SP)2 فیلڈ رجمنٹ ، مردان میں بھیج دی گئی اور دوسری بیٹری انڈیا چلی گئی۔
یہ سٹیٹ فورسز، کشمیر کے طول و عرض میں صف بند تھیں اور جب مسلم آبادی نے بغاوت کی تو یہ اس کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ لیکن اس کے بعد انڈیا نے کشمیریوں کو زیر کرنے کی جو کوششیں کیں ان کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔
پاکستان۔ انڈیا تقابل و تصادم کے تناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر جس ملک کے پاس بھی چلا جاتا اس کو سٹرٹیجک برتری سے ہمکنار کر دیتا۔ اگر جغرافیائی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھا جائے تو انڈیا کو پاکستان کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل تھی۔ کشمیر کے انڈین ہاتھوں میں ہونے کا مطلب وہی ہے جو 1938ءمیں چیکو سلواکیہ کا جرمن ہاتھوں میں ہونے کا تھا!
1947ءمیں وادیءجہلم میں ریاست کشمیر کی سب سے فارورڈ بٹالین 4جے اینڈ کے (J&K) بٹالین تھی جس کا کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل نارائن سنگھ تھا۔ بٹالین کی صف بندی اس طرح تھی:
بٹالین ہیڈکوارٹرز.... ڈومیل
Aکمپنی.... کوہالہ برسالہ
Bکمپنی .... ہندواڑہ۔ گڑھی دوپٹہ
Cکمپنی.... لوہار گلی
Dکمپنی .... رام کوٹ گڑھی
بٹالینوں کی مشین گنیں مظفرآباد۔ ڈومیل پل کی حفاظت پر مامور تھیں۔
چارلی کمپنی جو لوہار گلی میں تھی وہ پنجابی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور کمپنی کمانڈر کا نام کیپٹن اعظم تھا۔22اور 23 اکتوبر 1947ءکی درمیانی شب آزاد فورسز کے کمانڈر نے کیپٹن اعظم سے رابطہ کیا۔ چارلی کمپنی کے JCOs صاحبان برما کی جنگ میں اس کمانڈر کے ماتحت جنگ لڑ چکے تھے اور ان سب جونیئر کمیشنڈ افسروں نے پاکستان جانے کی حامی بھری ہوئی تھی۔
ڈیلٹا کمپنی کے مسلمانوں (PMs)نے بھی پاکستان جانے کا ڈکلیریشن دیا ہوا تھا۔ انہوں نے دشمن کی لوکیشن کیپٹن اعظم کو دے دی۔ ڈومیل سے 800گز نشیب میں دریا کا ایک پل تھا جس کو پیدل چل کر عبور کیا جاتا تھا۔ اس پر کوئی حفاظتی ٹروپس متعین نہیں تھے اور یہ صرف ایک ہی پل تھا جس کی حفاظت پر کوئی حفاظتی دستہ تعینات نہ تھا۔ آزاد کمانڈر نے اپنے ٹروپس کی ایک پارٹی لوہار گلی سے ڈومیل کے عقب میں ڈوگرہ کمپنی کے خلاف روانہ کی۔
اس طرح 23اکتوبر 1947ءکی صبح کو مظفرآباد۔ ڈومیل دشمن سے کلیئر کروایا جا چکا تھا۔
26اکتوبر کو آزاد ٹروپس بارہ مولا میں داخل ہو گئے۔ 27اکتوبر کو 1/11سکھ بٹالین ، لیفٹیننٹ کرنل رائے کی قیادت میں سری نگر اتری.... 1/11سکھ کو درج ذیل ٹاسک دیئے گئے:
1۔ سری نگر ائرپورٹ اور سول ایوی ایشن وائرلیس سٹیشن اپنے قبضے میں کرو۔
2۔دشمن کو سری نگر سے دور بھگاﺅ۔
3۔لوکل گورنمنٹ کو امن و امان کے قیام میں مدد دو۔
لیفٹیننٹ کرنل رائے نے ایک کمپنی سری نگر ائرفیلڈ کی حفاظت کے لئے چھوڑی اور دو کمپنیوں کو لے کر بارہ مولا کی طرف پیش قدمی کی۔ اس لمحے انڈین طیاروں نے بارہ مولا میں آزاد فورسز کی ٹرانسپورٹ پر حملہ کر دیا اور اسی روز انڈین ٹروپس نے بارہ مولا سے کچھ پیچھے مورچے سنبھال لئے۔
28اکتوبر کو آزاد کمانڈر نے 300ٹروپس اکٹھے کئے۔ ریاست کی گھڑ سوار فوج نے ان پر حملہ کیا۔ یہ سٹیٹ کیولری ایک سکواڈرن پر مشتمل تھی۔ اس میں سے صرف گھوڑے واپس جا سکے۔ اسلم نے 3انچ مارٹر سے انڈین مورچوں پر حملہ کیا۔ لیفٹیننٹ کرنل رائے مارا گیا اور انڈین ٹروپس پتن کی طرف پسپا ہو گئے۔
29اکتوبر کو 1/11سکھ پتن میں پوزیشنیں سنبھالے ہوئی تھی۔ اسی روز انڈیا سے ہیڈکوارٹر 161 بریگیڈ، ون کماﺅں بٹالین اور مہار کی ایک مشین گن کمپنی سری نگر میں اتار دی گئی۔
30اکتوبر کو آزاد کمانڈر نے کیپٹن شیر محمد (کشمیر سٹیٹ فورس) کی کمانڈ میں 200ٹروپس دشمن سے مقابلے کے لئے روانہ کئے تاکہ وہ پتن کو بازو کش کرکے براستہ بڈگام سری نگر ائر فیلڈ پر حملہ کریں۔ 30نومبر کو اس فورس نے بڈگام میں 4کماﺅں کی ایک کمپنی کو شکست دی۔ کمپنی کمانڈر میجر سومناتھ مارا گیا۔
ایک اور آزاد فورس، ایک ریٹائرڈ پنجابی مسلمان (PM) صوبیدار میجر کی کمانڈ میں بانڈی پورہ اور گاندر بل کے راستے سری نگر کی جانب روانہ کی گئی۔ گاندربل میں ایک جھڑپ میں صوبیدار میجر مارا گیا اور یہ فورس تتر بتر ہو گئی۔
دریں اثناءانڈین ائر فورس نے آزاد فورسز پر پے درپے حملے کئے اور یہ فورسز غیر منظم ہو کر بکھر گئیں۔(جاری ہے)