جب رزم حق و باطل میں روزہ کی سنت ادا ہوئی
روزہ میں جفاکشی سے فرار مسلمان کی شان نہیں ہے۔یہ تو سہولتوں کا زمانہ ہے۔یاد کریں غزوہ بدر،فتح مکہ سمیت کئی غزوات اور معرکہ حق و باطل ماہ رمضان میں ہوئے اور مسلمانوں نے روزے کی حالت میں جہاد کیا۔طارق بن زیادہ نے بھی اندلس کی جنگ ماہ رمضان میں لڑی اور روزہ کی سنت برقرار رکھی۔اسلامی تاریخ واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے ماہ رمضان میں تجارت اور جہاد میں مسافتیں اور مشکلات طے کیں مگر اللہ کی خوشنودی سے تائب نہیں ہوئے ۔مگر آج ہمارا حال ابتر ہوچکا ہے۔روحانی و جسمانی طور پر نحیف اور گمراہ۔روزہ کی سنت پر عمل کیا جائے تو یہ جسم و روح کی ڈھال بن جاتا ہے ۔قیام پاکستان میں ہجرت کے وقت بھی بہت سے مسلمانوں نے کسم پرسی کی حالت میں روزرکھے ہوئے تھے۔یہ حالت آج بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔پاکستان کے اندر اور دوسرے ملکوں میں بھی ،شام میں جہاں جنگ برپا ہے،بدحال مسلمان روزہ رکھتے ہیں ۔کوئی جسمانی تکلیف انہیں روزہ سے نہیں روک سکتی۔روزہ کی سنت استقامت اور صبر ہے۔
روزہ قرآن حکیم نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور یہ کسی طور پر کسی کو معاف نہیں ہے۔ البتہ اتنی رعایت دی ہے کہ اگر تم مریض ہو اور صحت اجازت نہیں دیتی تو صحت مند ہونے تک رخصت ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ بڑی برکت، رحمت اور بخشش والا ہے۔ رمضان المبارک کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اسی ماہ مبارک کی مبارک ساعتوں میں قرآن حکیم نازل ہوا۔ جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے راہنما کتاب ہے۔ آج کل پورا عالم اسلام کے مسلمان اللہ کی اطاعت اور قرآن حکیم کے مطابق رمضان المبارک کے روزوں کی سعادت سے بہرہ ور ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھوک، پیاس اور اپنے اعمال کو قابو میں رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ دراصل ماہ تربیت ہے تاکہ آئندہ دنوں میں اس طرح زندگی گزاریں۔ رمضان المبارک صبر، ضبط، برداشت اور اطاعت کا درس دیتا ہے۔ اس طرح ماہ مبارک میں نظم و ضبط کے مطابق زندگی گزارنے سے جسمانی صحت پر اچھے اثرات ہوتے ہیں اور کئی امراض سے تحفظ ملتا ہے۔ مگر اکثریت لوگ روزہ سے روحانی و جسمانی فوائد سے فائدے حاصل نہیں کر پاتے۔ جس کی وجہ روزہ کو اس کی روح کے مطابق نہ رکھنا ہے۔ اگر ہم روزہ میں ترک غذا نہیں کرتے اور اپنے گھروں کا بجٹ دوگنا کر تے ہیں تو اس سے نہ صرف جسمانی بلکہ مالی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی ضرورتوں اور بھوک و پیاس کا اندازہ کیسے کر سکتے ہیں اگر ہم روزہ کے دینی روحانی اور طبی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آقا نامدار رسول اکرم ؐ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں سرکار دوعالم کی سنت پر ر وزہ رکھنا اور افطار کرنا ہوگا۔ اس طرح ہم روزہ کے فوائد سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
رسول اکرمﷺ اور ان کے رفقاء روزہ کے دوران اپنے کام معمول کے مطابق کرتے تھے۔ آپؐ نے رمضان میں بدر کی جنگ لڑی۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ جس نے روزہ رکھ لیا کام سے فرار حاصل کرتا ہے۔ دفاتر کے اوقات مختصر ہو جاتے ہیں۔ اپنا روزہ کا اجر اللہ سے ملتا ہے۔ مگر اکثر روزہ دار روزہ کا جواز بنا کر کام چوری کرتے ہیں۔ آپ ؐ کا معمول تھا کہ عجوہ کھجور سے افطار کرتے۔ اگر کھجور میسر نہ ہوتی تو ستو پانی میں گھول کر افطار کرتے۔ روزہ کی دینی، روحانی اور طبی فوائد کیلئے ضروری ہے کہ روزہ رسول اکرم ؐ کے عمل کے مطابق افطارکریں۔ بسیار خوری، نمائشی افطار پارٹیوں اور بے جا اصراف سے اختیاط کریں۔
(ادارہ ہمدرد سے وابستہ حکیم راحت نسیم سوھدروی قومی طبی کونسل کے رکن بھی ہیں۔عرصہ دراز سے قومی اخبارات و جرائد میں انکے طبی مضامین شائع ہورہے ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔مستند معالج اور محقق ہیں،حکیم محمد سعید کے معاون کی حیثیت سے انکے ہمراہ مطب کرتے رہے ہیں ۔ا ن سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ hknasem@gmail.com)
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔