چھیالیسویں قسط،بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ
کشف المجوب از علی بن عثمان ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش کے مقدمہ میں مولوی محمد شفیق لکھتے ہیں:
۱۔’’خلاصتہ التواریخ‘‘ میں ہے کہ جناب ہجویری غزنین سے سلطان محمود کے ہمراہ آئے اور سلطان نے فتح لاہور کو ان کے برکات قدم کی طفیل سمجھا۔ ‘‘ یہ بیان غالباً درست نہیں ہے اس لئے کہ اگر بقول عبدالطیف سلطان محمود نے لاہور ۳۹۳ھ میں فتح کیا جو غالباً داتا صاحب کے بچپن کا زمانہ ہے یا وہ شاید اس وقت ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔‘‘
۲۔ ’’خلاصتہ التواریخ‘‘ کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت (داتا صاحب ) سلطان محمود کے ساتھ اس ملک میں آئے۔ اس لئے کہ سلطان کے حملوں کے زمانہ بقول لین پول ۳۹۲ھ تا ۴۱۵ھ (۱۰۰۱ تا ۱۰۲۴ء) تھا۔ )
پنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۳۔ مفصل حالات پرانے تذکرہ نویسوں میں سے کسی نے نہیں لکھے۔ یہاں تک کہ ان کی تاریخ ولادت و فات اور ان کے ورود لاہور کی تاریخ بھی قطعی طور پر معلوم نہیں ۔ اندازے سے کہا جاتا ہے کہ ان کی ولادت پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ہوگئی اور وفات کی تاریخ مشہور ۴۶۵ھ اور ۴۶۹ ھ کے درمیان بتائی جاتی ہے مگر قیاس چاہتا ہے کہ ان کا وصال اس سے بہت بعد ہوا۔‘‘ (ص ۱۷)
۴۔ افسوس ہے کہ جناب شیخ (داتا صاحب ) کے شخصی حالات بہت کم محفوظ رہے ہیں۔ آپ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں اور تاریخ وفات جو مشہور ہے وہ بھی یقینی نہیں۔ ان کے لاہور آنے کا زمانہ، ان کے قیام لاہورکی مدت، ان میں سے کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی بعض باتیں جو انہوں نے اپنے متعلق اپنی کتاب کشف المجوب میں لکھ دی ہیں صرف انہیں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تاریخ وفات کے سلسلے میں بھی اسی کتاب سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ سفینتہ الاولیاء مطبوعہ میں داراشکوہ نے لکھا ہے کہ ان کی وفات کی تاریخ ۴۵۶ھ ہے اور ایک دیگر روایت کی رو سے ۴۶۴ھ ہے مگر خزینتہ الاصفیاء میں ہے کہ
’’سفینے میں ۴۶۴ھ اور ۴۶۶ دیا ہے۔ اسی طرح خزینتہ الاصفیاء ہی میں ہے کہ’’نفحات الانس‘‘ میں آپ کی تاریخ وفات ۴۶۵ھ دی ہے مگر نفحات کے مطبوعہ اور قدیم نسخوں میں جو میں نے دیکھے ہیں کہیں آپ کی تاریخ وفات درج نہیں ہے۔ بہترحال آپ کے احاطہ مزار میں دو جگہ جامی لاہوری کے دو قطعات تاریخ میں ۴۶۵ھ ہی تاریخ دی ہے اور یہی تاریخ ماثر الکرام خدائق الخنفیہ، اور نزہتہ الخواطر میں اختیار کی گئی ہے۔ مگر بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ(داتا گنج) اس سے کئی سال بعد تک زندہ رہے۔‘‘ ص ۲۲
۵۔ سفینتہ الاولیاء میں ہے کہ تجرد و توکل کے قدم پر وہ سفر میں رہے اور بہت سی سیاحی کے بعد لاہور پہنچ کر مقیم ہوئے ۔اپنے لاہور کے قیام کا ذکر انہوں نے کشف المجوب میں صرف ایک جگہ کیا ہے ایک بزرگ کے ذکر میں لکھتے ہیں’’ان سے بہت سی روایتیں مجھ کو میرے شیخ کے ذریعے پہنچی ہیں مگر اس وقت اس سے زیادہ درج کرناممکن نہیں۔ اس لئے کہ میری کتابیں دارالسلطنت غزنین میں ہیں ۔خدا اس کا نگہبان ہو! اور میں دیار ہند میں ناجنسوں کے درمیان (قلمی نسخہ ص ۱۲۷ اور روسی ص ۱۱۰) گرفتار ہوں۔ اس عبارت کا آخری حصہ بعض نسخوں میں یوں ہے ’’۔۔۔ اور میں شہر لہانور میں جو ملتان کے مضفافات میں ہے ناجنسوں کے درمیان گرفتار ہوں‘‘ اس جملہ سے ظاہر ہے کہ کشف المجوب کا اگلاا کچھ حصہ لاہور میں مرتب ہوا۔ ‘‘ ص ۳
محمد شفیع نے داتا صاحب کی تاریخ پیدائش اور وفات اور لاہور کے متعلق کافی تحقیق کی ہے جو قابل تعریف ہے لیکن لاہور کے متعلق انہوں نے بھی دوسرے مورخین کی طرح ٹھوکر کھائی۔ حالانکہ اس مطبوعہ کشف المجوب کے ص ۹۶ (اور قلمی نسخہ ص ۱۲۷ اور روسی ص ۱۱۰) پر داتا صاحب کا خود اپنا بیان اس طرح ہے۔
’’اما اندر وقت بیش ازیں ممکن نشد کہ کتب سن بحضرت غزنین حرسبھا اللہ ماندہ بودومن اندر دیار ہند درمیان ناجنسان گرفتار شدہ و الحمد للہ علی السراء و الضرار۔‘‘
ان کے اس الفاظ میں لاہور کا ذکر قعطا نہیں البتہ دیار ہند کا ذکر ہے۔ داتا صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمانہ غزنی خاندان کے زوال کا ہے اور اغلباً غزنی شہر اس وقت غوریوں کے قبضہ میں آچکا ہے اور خطرے کا وقت ہے۔ کتابوں کے حصول کے لیے اب وہاں رسائی مشکل ہے اور کتابوں کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ بلکہ اپنی عزت کے متعلق بھی تشویش ہے اور فکر و اندیشہ ہے کہ کہیں بادشاہت کی تبدیلی میں ان کو غزنی سے نسبت کے سبب تکلف نہ پہنچے۔ وہ ان خدشات کے باعث اپنی حفاظت کے لیے دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ لہٰذا ان کی اس تحریر سے ان کا زمانہ متعین کرنے میں بھی کافی مدد ملتی ہے۔
دیار ہند سے مراد موجودہ شہر لاہور نہیں ہو سکتا وجہ یہ ہے کہ ان ایام میں ہندا ور لاہور دونوں مقامات دریائے سندھ کے مغربی کنارے جو ہندو شاہیہ اور بعد میں سلاطین غزنی کا دارالسلطنت تھا کے قریب شمال مشرق میں سولہ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں میں دارہند ہندوؤں کے چند دیہاتوں کا مجموعی نام تھا۔ یہی علاقہ اس وقت دیار ہند کے نام سے معروف تھا۔ یہاں اب بھی چند گاؤں ہیں جو دارہند کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ اس لئے زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ دیار ہند سے موجودہ ہندوستان کے دیار و امصار مراد نہیں بلکہ مذکورۃ الصدر ہند کے قرب و جوار کے علاقہ کی طرف اشارہ ہے۔ (جاری ہے)
سنتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔