بچوں میں تفریق کا زہریلا رویّہ 

بچوں میں تفریق کا زہریلا رویّہ 
بچوں میں تفریق کا زہریلا رویّہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کچھ روز قبل یونیورسٹی میں ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے تذکرہ کیا کہ اُسکے والدین کا رویہ اسکے ساتھ نازیبا ہے ۔ وہ اسکے ساتھ نامناسب رویہ اپناتے ہیں، اُس پر شک کرتے ہیں اسے ڈانٹتے ہیں اور دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت کم پیار کرتے ہیں۔ اُس کی یہ سب باتیں میرے لیے ہر گز نئی نہ تھیں ۔میں جانتی تھی کہ ایسا ہوتا ہے ۔ وہ جو کہہ رہی ہے وہ حقیقت ہے ۔والدین جانے انجانے میں فرق کرتے ہیں اور وہ تفریق کسی بچے کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ شاید تمام لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہو کہ والدین یا پھرایک ’’ماں‘‘ جو نو ماہ تک ایک بچے کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر رکھتی ہے ۔فرق کر سکتی ہے؟ جی ہاں کر سکتی ہے ۔ میں نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ماں کے ہوتے ہوئے اُس کی مامتا اُسکے لمس کے لیے ترستے ہیں ۔ کئی ایسے مقدمات کو عدالتوں میں ہینڈل کرچکی ہوں جب اولاد اور والدین میں ان بن ہوجاتی ہے تو اسے نتائج میں عدالت کو درمیان میں آنا پڑتا ہے۔یہ تلخ اور شرمندہ ترین حقیقت ہے جس سے ہمارا سامج دوچار ہوچکا ہے ۔
عموماً بڑی اولاد اِس زیادتی کا شکار ہوتی ہے ۔ والدین کانامناسب اور تفریق پر مبنی رویہ اُنکے بچوں کی شخصیت تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے اِدگرد محبت کرنے والے لوگ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ جو انکے دوست بنیں، انکا دکھ درد بانٹتیں، بعض اوقات اِسی کھوج میں وہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہی جو انھیں نہ صرف misguide کرتے ہیں بلکہ انھیں یا تو نشے کا عادی بنا دیتے ہیں یا پھر جرائم کا شریک کار۔ 
والدین کی چھوٹی سی غفلت بچے کی شخصیت کے ساتھ کیا کر سکتی ہے اِسکا انہیں اندازہ بھی نہیں ۔ بعض اوقات بچپن کا احساس محرومی بڑھاپے تک جان نہیں چھوڑتا ۔ بلکہ والدین کا امتیازی سلوک بہن بھائیوں کے درمیان بھی دشمنی اور فساد کا سبب بنتا ہے۔ 
والدین ایسا کیوں کرتے ہیں اِس کی کیا وجوہات ہیں کہ اپنی ہی اولاد کے ساتھ انکا رویہ برا کیسے ہو سکتا ہے ۔ دراصل بعض اوقات بہن بھائیوں میں کوئی بچہ زیادہ لاڈلا ہوتا ہے جس کی ہر ضد پوری کرنا والدین اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یا پھر کوئی بچہ جسمانی یا ذہنی طور پر کمزور ہوتا ہے اور والدین کو لگتا ہے کہ انکا یہ فرض ہے کہ اس بچے کی حد سے زیادہ طرفداری کریں۔ بعض گھرانوں میں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ بعض اوقات والدین ایک بچے سے بلاوجہ چڑنے لگتے ہیں ۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر والدین کا یہ رویہ ناقابل برادشت اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ 
بعض اوقات والدین اپنے ذہین بچے کو اس لیے appreciate نہیں کرتے کہ اس بچے کو برا لگے گا جو ذہنی اعتبار سے کمزور ہے یا Intelligent نہیں ہے ۔ ایک حد تک ہو سکتا ہے یہ رویہ ٹھیک ہو مگر اِس میں اس بچے کا کیا قصور جو مستعد اور ذہین ہے یا جو محنت کرتا ہے کہ امتحان میں کامیاب ہو ۔ اس بچے کو بھی تو ہماری حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اچھا پرفارم کرے۔ میں نے ایسے گھرانے بھی دیکھے ہیں جہاں اگر ایک بہن خوبصورت اوردوسری واجبی شکل و صورت کی مالک ہے تو ماں اس بیٹی کو فوقیت اور اہمیت دے گی جو کہ واجبی شکل و صورت کی مالک ہے تاکہ وہ احساس کمتری محسوس نہ کرے ۔ بات تو یہ بھی ٹھیک ہے مگر طریقہ کار غلط ہے اس مسئلے کو اور طرح سے ہی سلجھایا جا سکتا ہے ۔ ضروری تو نہیں کہ ہم ایک بچے کے احساسات کو کچل کر ہی دوسرے بچے کو مضبوط بنائیں۔ 
گویایہ باتیں بہت بڑی نہیں ہیں مگر یقین جانئے احساس کمتری اور اس امتیازی سلوک کی جڑیں کسی بچے کے پورے وجود کو کسی موذی مرض کی طرح جکڑ لیتی ہیں۔ ایسے بچے کسی بھی رشتے دارپر یا تو اعتماد کر سکتے ہیں اور یہ مثبت شخصیت کے مالک نہیں بنتے ، کوشش کریں کہ سب بچوں کو برابری کے اصول کو اپناتے ہوئے محبت اور توجہ دیں کیونکہ وہ ہر بچے کا حق ہے اور بحیثیت والدین ہمارا فرض۔ 

۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -