دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر52
کوہ نور فلم کی شوٹنگ سے پہلے ہی ایک حیران کن واقعہ رونما ہوگیا ۔اس کا ذکر بھی سن لیجئے۔ایک دن میں اور سنی نے فیصلہ کیا کہ پرناسک جو کہ مہراشٹر سے 190کلومیٹر دور ہے وہاں مناسب لوکیشن کا انتخاب کرلینا چاہئے ۔ میں نے سنی کو مشورہ دیا کہ شام کے وقت نکلیں گے تاکہ رات سے پہلے ان لوکیشنز کے مناظر دیکھ کر بہتر فیصلہ کیا جاسکے گا۔وہ گھر چلا گیا تاکہ سامان وغیر پیک کرسکے ۔اسکی بیوی بڑی دلچسپ خاتون تھی۔اسکو پراسرار واقعات میں بڑی دلچسپی تھی۔غیر ضروری سوالات کرتی تھی۔بولی کہ وہ بھی ساتھ جائے گی ۔لیکن سنی نے اس کو منع کردیا ۔اس نے نہ لے جانے کی وجہ پوچھی تو سنی نے اسکو وضاحت کرنا مناسب نہ سمجھا ۔
جب ہم لوگ نکلے تو موسم خلاف معمول تیور بدل گیا ۔ہم چار لوگ تھے ،کیمرہ اسسٹنٹ اور ڈرائیور بھی ایک ہی گاڑی میں تھے اس لئے سنی کی بیوی ساتھ ہوتی تو ظاہر ہے اسکی گنجائش نہ نکل پاتی۔اس لئے سنی نے ناراض بیوی کو گھر ہی چھوڑدیا تھا ۔اتفاق سے سنی نے اس وقت تو مجھے اپنی بیوی بارے کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ جادوگری بھی کرتی ہے اور وہموں میں شکار رہتی ہے ۔لیکن اس واقعہ کے بعد اس نے بیوی کی جادوگری بارے بتا کر حیران کردیا۔
گاڑی جوں جوں منزل کی جانب بڑھ رہی تھی توں توں موسم بگڑتا جارہا تھا ۔بارش کی تیزی میں گاڑی کی ونڈ سکرین سے سامنے سڑک پر نگاہ رکھنا دوبھر ہوگیا تو سوچا کہ سڑک کے کنارے کسی جگہ موسم کے ٹلنے کا انتظار کیا جائے ۔ہم آبادی کے آثار دیکھتے ہوئے آگے بڑھے تو راستہ میں ایک شیڈ نظر آگیا ۔
شیڈ کی حالت بھی دگرگوں تھی،چھٹ ٹوٹی ہوئی اور بقیہ حصہ پرٹاٹ کا ٹکڑا رسی سے بندھا تھا ،پاس ہی ایک بکری تھی جو ہمیں دیکھ کر سردی سے منمنانے لگی ۔ہم سب نے جب ٹاٹ کے نیچے پناہ لی تو سامنے ایک عورت کو دیکھ کر ہم سب کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔وہ سنی کی بیوی تھی جو بارش میں بھیگ رہی تھی۔اسکے چہرے پر استہزائی مسکراہٹ تھی۔بظاہر وہ گھر میں تھی لیکن اس وقت تو وہ ہمارے سامنے تھی۔سنی کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔اسے دیکھکر وہ فاتحانہ طور پر مسکرانے لگی۔
طوفان تھم گیا اور ہم واپس گاڑی میں بیٹھ گئے لیکن سنی اور اسسٹنٹ کا برا حال تھا ۔میں خود بھی کنفیوژ تھا اس لئے میں نے اپنے ڈرکو پشتو گیت میں ڈبو دیااور جو پشتو گانا مجھے آتا تھا ،گنگنانے لگا۔لیکن میرے ساتھیوں کا حال بدستور خراب تھا۔
ہم لوکیشنز پر پہنچے اور اپنے مطابق جائزہ لینے کے بعد واپس ہولئے ۔اگلی دوپہر کو میں اپنی بہنوں کے پاس موجود تھا اور انہیں گزری رات کا قصہ بیان کررہا تھا ،عین وقت پر گاڑی کا ہارن بجا۔ بہنیں دوڑ کربالکونی پر گئیں کہ دیکھیں کون آیا ہے ۔اچانک وہ واپس ہوئیں تو انکے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ،ناقابل یقین حد تک خوف ان کے چہروں پر کندہ تھا ۔مجھے اشارے سے بلایا اور میں نے بھی بالکونی سے جا کر نیچے دیکھا تو سنی ا ور اسکی بیوی گاڑی سے اتر رہے تھے ۔کیا یہ اتفاق تھا کہ عین اس وقت جب ہم سنی کی بیوی کا ذکر کررہے تھے وہ ہمارے گھر پہنچ چکی تھی۔کیا اسکو جادو کہتے ہیں۔میں آج تک اس کا معمہ نہیں سمجھ پایا ۔
**
اب وقت ہوچلا تھا میں اور سائرہ بانوہنی مون کے لئے نکلتے ،اس روز میں اسکی شوٹنگ والی لوکیشن پر پہنچا اور جیسے ہی گاڑی رکی وہ اداس بچوں کی طرح بھاگتی ہوئی اور میرے گلے لگ گئی ۔ہماری چھٹیوں کا آغاز ہوچکا تھا ۔میں نے ڈرائیور کو اشارہ کیاا ور ہم بھوٹان کی جانب جانے والی سڑک پر رواں ہوگئے۔بھوٹان کے شاہ نے ہمیں دعوت بھی دے رکھی تھی۔سائرہ اب اس بات کی جان چکی تھی کہ مجھے لانگ ڈرائیواور تنہائی والے غیر مقبول علاقوں میں جانے کا شوق تھا ۔وہ گہماگہمی کی زندگی گزار رہی تھی۔سارا یورپ دیکھ چکی تھی ۔بعد میں جب ہم یورپ جاتے تو وہ پہلے بتادیتی کہ وہ اس علاقے میں کیا کیا دیکھ چکی ہے۔مزاج میں فرق کے باوجود اس میں ہم آہنگی کا شعور تھا ۔اس لئے وہ میرے ساتھ ان غیر معروف مگر پرسکون علاقوں میں نکل پڑتی تھی۔میری ڈکی میں انڈے پیاز،آلو سمیت کھانے پکانے کا کافی سامان ہوتا تھا ۔ڈرائیوراور خانساماں انہیں اتار کر کچن لگا لیتے تھے۔
اس روز ہم بھوٹان کی جانب محو سفر ہوئے۔انتہائی خوبصورت علاقہ تھا ۔زمین پر جنت ۔جنگلوں اور ہرے برے پہاڑوں میں لکڑی کے بنے گھروں کو دیکھ کر بھوٹان کی خوبصورتی پر رشک آیا ۔یہ دم ہمارے لئے قیمتی سرمایہ تھے۔بہت لطف اندوز ہونے والا وقت تھا یہ۔لیکن ایک سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔لیکن یہ واقعہ بھی کسی سانحہ سے کم نہیں تھا ۔اس رات سردی بہت زیادہ تھی ۔ نورجہاں جو سائرہ کی ملازمہ تھی اور اسے ساتھ لائی تھی ،دوسرے کمرے میں تھی۔سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے کوئلے والی انگیٹھی جلائی ۔صبح جب میری آنھ کھلی تو یکایک میں ہڑ بڑا گیا کیونکہ سائرہ میرے پہلو میں نہیں تھی۔میں نے اسے آواز دی کہ شاید کچن میں ہو ،لیکن اسکی آواز نہیں آئی۔ سوچا باہر نکل گئی ہوگی لیکن اتنی سردی میں؟
میں نے ذہن جھٹکا اور جب باتھ روم گیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں تو چیخ اٹھا ۔میرے سامنے میری جان سائرہ بانوسفید گاؤن میں بے سدھ گری پڑی تھی۔اس کا بدن اکڑا ہوا تھا ،نہ جانے کب سے وہ یہاں بے ہوش پڑی تھی۔میں نے اسے بازووں میں اٹھایا اور بستر پر ڈال کر فوری ڈاکٹر کو فون کیا ۔سائرہ میرے سامنے بے سدھ تھی اور میرے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے تھے ’’ یا اللہ سائرہ کو مجھ سے ملانے کے بعد اب اسکو واپس نہ لینا ‘‘
کبھی ایک دعا کرتا اور کبھی دوسری۔ڈاکٹر آیا اور انجکش دیا ،بعد میں معلوم ہوا کہ کمرے میں کاربن ڈائی اکسائیڈ اکٹھی ہوجانے کی وجہ سے تازہ آکسیجن مفقود ہوگئی تھی ، سائرہ کو جب آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ اٹھی اور باتھ روم میں جا کر اپنے جی کی گھبراہٹ کا سبب جاننے لگی تو بے ہوش ہوگئی۔
ہم نے ہنی مون ملتوی کیا اور واپس بمبئی پہنچے،بمبئی میں اسے اپنے گھر لے جانا بھی دوہری تشویش کا باعث تھا ۔میں جانتا تھا کہ سائرہ جس ماحول میں رہی ہے اس کے لئے جوائنٹ فیملی اور وہ بھی ایسی نندوں کے ساتھ جو سخت گیر ہیں انکے ساتھ گزارہ کرنا آسان نہیں تھا ۔آپا سکینہ کے علاوہ سعیدہ اور فوزیہ جو شادی شدہ تھیں ،ان کا بھی آنا جانا رہتا تھا بلکہ فوزیہ نے تو اپنے شوہر کے ساتھ مستقلاً ادھر ہی ڈیرہ ڈال لیا تھا ۔سائرہ نازونعم میں پلی تھی۔اس کا اپنا ٹھاٹھ تھا ۔اسے مشترکہ گھر میں رہتے ہوئے واش روم بھی شئیر کرنا پڑتا تھا۔کئی بار ایسا ہوتا کہ وہ واش روم میں جانے کے لئے اٹھتی تو فوزیہ واش روم میں براجماں ہوتی۔وہ چاہتی تو اس بات کو ایشو بنا سکتی تھی۔لیکن اسکی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی۔ سائرہ بانو نے اس پر بھی برا نہیں منایا بلکہ وہ چند منٹ کے لئے ٹہلتے ہوئے پیدل ہی اپنے بنگلے تک چلی جاتی جو چند قدموں کے فاصلہ پر تھا ۔
(جاری ہے )